چشم انتظار یار

چشم انتظار یار

Install Times new Roman Font on ur Computer
چشم انتظار یار

چشم انتظار یار

Install Times new Roman Font on ur Computer

رمضان کی عظمت اور فضیلت

 

 روزے کو عربی میں صوم کہتے ہیں ۔ صوم کے لفظی معنی رک جانے اور باز رہنے کے ہیں ۔قرآن میں کہیں کہیں روزے کے لئے صبر کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے جس کے معنی ضبط نفس ، ثابت قدمی اور استقلال کے ہیں ۔ اصطلاح میں روزے کے معنی صبح سے غروب آفتاب تک خالص اللہ کے لئے کھانے پینے اور دیگر ممنوعات شرعیہ سے رکنے کے ہیں ۔ قرآن نے روزے کا مقصد حصول تقوی بیان کیا ہے ۔چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ ”اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقوی شعار بن جاﺅ ۔ “ تقوی دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس میں نیک باتوں کی طرف رغبت اور بری باتوں سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے ۔ انسانی خواہشات چونکہ انسان کو برائی کی طرف لے جاتی ہے اس لئے ان خواہشات پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے روزے کا نسخہ تجویز کیا گیا ہے ۔ روزہ رکھنے سے حیوانی جذبات دب جاتے ہیں اور انسان کی خواہشات کمزور پڑ جاتی ہے ۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان نوجوانوں کو جو مالی مجبوریوں کے باعث نکاح کرنے سے معذور ہوں یہ مشورہ دیاہے کہ وہ روزے رکھیں ۔ آپ نے فرمایا کہ روزہ شہوت کو توڑنے اور کم کرنے کے لئے بہترین علاج ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ابتدا میں مسلمانوں کو ہر مہینے صرف تین دن روزے رکھنے کی ہدایت کی تھی مگر یہ روزے فرض نہ تھے ۔ پھر ۲ہجری میں قرآن میں حکم نازل ہوا کہ رمضان کا پوار مہینہ روزے رکھو ۔ بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ روزوں کے لئے رمضان ہی کے مہینے کی تخصیص کیوں ہے ۔ قرآن نے اس سوال کا جواب خود ہی دے دیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ۔ ”رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے ۔ جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جوراہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے ۔ پس جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے ۔“ (البقرہ175 ( یعنی رمضان کو روزوں کے لئے اس لئے مختص کیا گیا ہے کہ اس مہینے میں قرآن نازل ہوا تھا لہذا رمضان کا پورا مہینہ رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے ۔ قرآن کی اہمیت محتاج بیان نہیں ۔ یہ خداکی آخری کتاب ہے جو بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے اتاری گئی ۔ یہ حق و باطل کو نکھار کر الگ الگ کر دیتی ہے ۔ لہذا اللہ تعالی نے حکم دیا کہ اس مہینے میں روزے رکھ کر ”نزول قرآن “ کی سالگرہ منایا کرو اور قرآن کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے کی کوشش کیا کرو ۔ اس لئے اس مہینے میں تلاوت قرآن معمول سے زیادہ کی جاتی ہے اور ہر مسلمان کم از کم ایک مرتبہ قرآن ختم کرتا ہے ۔ نماز تراویح میں بھی قرآن پڑھا جاتا ہے اور ویسے بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے بعض روایا ت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم رمضان کے مہینے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام سے قرآن کا دور کیا کرتے ہیں ۔ روزہ دو باتوں پر منحصر ہے ۔ (1) صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک نہ کچھ کھایا جائے اور نہ پیا جائے ۔ (2)صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک جنسی اختلاط سے پرہیز کیا جائے ۔ اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کہ انسانی خواہشات میں سے یہی دو خواہشات سب سے زیادہ پر زور اور سر کش ہیں ۔ یہ صرف خواہشات ہی نہیں بلکہ انسان کی فطری ضرورتیں بھی ہیں اور انہی پرنسل انسانی کی بقاءبھی منحصر ہے ۔ لہذا اسلام نے انہیں کنٹرول میں لانے کے لئے ایک ماہ کا تربیتی کورس مقرر کر دیا ہے ۔ اب اس پورے مہینے میں دن بھر ہم اپنی ان خواہشات کو محض خدا کی خوشنودی کے لئے قابو میں رکھتے ہیں ۔ اگرچہ ہم چھپ کر ان خواہشات کی تکمیل کرسکتے ہیں لیکن محض اس لئے ایسا نہیں کرتے کہ یہ ہمارے خدا کا حکم ہے اسی کو تقوی کہتے ہیں اور یہی چیز تمام عبادات کی جڑ اور اخلاق کی بنیاد ہے ۔ اخلاص اور بے ریائی روزے کی بنیادی خصوصیات ہیں ۔ اسی لئے ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ ”روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دونگا ۔“ یعنی میرا بندہ محض میری خوشنودی کے لئے اپنی خواہشات کو قابو میں رکھتا ہے ۔ سب کچھ موجود ہوتا ہے لیکن نہ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے ۔ میاں بیوی اکٹھے ہوتے ہیں لیکن محض میری خاطر ایک دوسرے کے قریب نہیں جاتے ۔ جب میری خاطر وہ اپنی خواہشات کی قربانی دیتے ہیں تو اب میرا فرض ہے کہ میں انہیں بڑھ چڑھ کر بدلہ دونگا ۔ جب روزے کا بنیادی مقصد ہی تقوی اور خدا خوفی کا حصول ہے تو یہ بات از خود ثابت ہو گی کہ باقی جن باتوں سے بھی اللہ نے منع فرمایا ہے روزہ دار ان سے بھی مجتنب رہے لیکن تولنے لگے تو کم تولے اور ناپنے لگے تو کم ماپے ۔ یا اللہ کے جو دیگر احکام ہیں ۔ ان کی خلاف ورزی کرے ۔ اگر وہ ایسا کرے تو اس کا روزہ روزہ نہیں بلکہ فاقہ کہلائے گا ۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ۔ ” جس شخص نے روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو وہ جان لے کہ اللہ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ بھوکار ہے یا پیاسا۔“ (بخاری ۔ کتاب الصوم)۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ صرف کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے اجتناب کا نام نہیں ہے بلکہ روزہ دار کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ باقی معاملات میں بھی اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرے ایک اور حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس بات کی مزید وضاحت فرمائی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں۔ ”کتنے ہی روزے دار ہیں جن کے پلے روزے سے پیا س کے سوا اور کچھ نہیں پڑتا ۔“ (دارمی شریف( اس حدیث میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ روزے کا مقصد صرف بھوکا پیاسا رہنا نہیں بلکہ تقوی و طہارت کا حصول ہے اگر روزہ دار تقوی کے حصول میں کامیاب ہو گیا تو اس کی بھوک پیاس اس کے کام آگئی ۔ لیکن اگر اس کی اخلاقی حالت میں کوئی فرق نہ پڑا تو اس کا بھوکا اور پیاسا رہنا بے کار گیا ۔ اگرچہ روزہ اصلاح نفس کے لئے ضروری ہے لیکن اس میں سختی یا فراط سے منع کیا گیا ہے ۔ بعض لوگ اعتدال کو ملحوظ نہیں رکھتے اور اپنے آپ کو بے جا سختی میں مبتلا کرنا نیکی سمجھتے ہیں ۔ یہ روش پسندیدہ نہیں ہے ۔ عرب میں صوم و صال کا طریقہ جاری تھا یعنی کئی کئی دن متصل روزے رکھتے تھے ۔ صحابہ نے بھی اس کا ارادہ کیا لیکن آپ نے سختی سے روک دیا ۔ قبیلہ باہلہ کے ایک صاحب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر واپس گئے سال بھر کے بعد دوبارہ آئے تو پہچانے نہ جاتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پوچھا کہ تم تو نہایت خوش جمال تھے ۔ تمہاری صورت کیوں بگڑ گئی ؟ انہوں نے عرض کیا ”جب سے آپ سے رخصت ہوا ہوں متصل روزے رکھ رہا ہوں ۔ آپ نے فرمایا ۔ اپنی جان کو کیوں عذاب میں ڈال رکھا ہے ۔ رمضان کے علاوہ مہینے میں ایک دن کا روزہ کافی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں تم سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہوں ۔ لیکن روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ۔ نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں جو شخص میرے طریقہ پر نہیں چلتا ۔ وہ میرے گروہ سے خارج ہے ۔ سفر میں اللہ تعالی نے خود روزہ چھوڑنے کی اجازت دی ہے ۔ اگر سفر میں روزہ رکھنے سے تکلیف کا احتمال ہو تو روزہ چھوڑ دینا چاہئے ۔خود حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سفر میں کبھی روزہ رکھا ہے اور کبھی نہیں رکھا ۔ لیکن یہ بات مناسب نہیں کہ سفر میں روزہ رکھ کر آپ باقی لوگوں کے لئے تماشا بن جائیں ۔ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سفر میں تھے ۔ راستے میں ایک شخص کو دیکھا کہ بھیڑ لگی ہوئی ہے اور لوگوں نے اس پر سایہ تان رکھا ہے ۔ آپ نے پوچھا ۔ کیا بات ہے ؟لوگوں نے بتایا کہ اس شخص نے روزہ رکھا ہوا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ سفر میں اس طرح روزہ رکھنا کچھ ثواب کی بات نہیں ہے ۔ اعتکاف کا مطلب یہ ہے کہ آدمی رمضان کا آخری عشرہ مسجد میں ہی رہے اور دن رات اللہ کے ذکر میں مشغول رہے ۔ اعتکاف کی حالت میں آدمی انسانی حاجات کے لئے مسجد سے باہر جا سکتا ہے مگر اس کے لئے لازم ہے ۔ کہ وہ اپنے آپ کو شہوانی لذتوں سے روکے رکھے ۔ اگر چاند انتیس تاریخ کو نظر آ جائے تو معتکف کا یہ عشرہ نو روز کا بھی ہو سکتا ہے ۔ کیوں کہ شوال کا چاند طلو ع ہوتے ہی اعتکاف ختم ہو جاتا ہے ۔ رمضان کا آخری عشرہ اس لئے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں لیلتہ القدر آتی ہے ۔ یہ وہ برکت والی رات ہے جسے قرآن ایک ہزار مہینوں سے بڑھ کر قرار دیتا ہے ۔ قرآن نے لیلة القدر کی فضلیت ان الفاظ میں بیان کی ہے ارشاد ہوتا ہے ۔ ”ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے اور تمہیں کیا پتا کہ شب قدر کیا ہے ۔ شب قدر ہزاروں مہینوں سے زیادہ بہتر ہے ۔ اس رات کو فرشتے اور روح الامین اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر نازل ہوتے ہیں ۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک ۔“ لیلة القدر بڑی مبارک رات ہے ۔ اس رات غار حرا میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی ۔ قدر کے معنی بعض مفسرین نے تقدیر کے لئے ہیں ۔ یعنی یہ وہ رات ہے کہ جس میں اللہ تعالی تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کے لئے فرشتوں کے سپرد کر دیتا ہے ۔ اس کی تائید سورةدخان کی یہ آیت بھی کرتی ہے ۔ ”اس رات میں ہر معاملے کا حکیمانہ فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے ۔ “ دوسرے مفسرین کے نزدیک قدر سے مراد عظمت و شرف ہے ۔ یعنی وہ رات جو بڑی عظمت و شرف والی رات ہے ۔ سورة القدر میں بھی اسے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ایک طاق رات ہے ۔ اکثر لوگ ستائیسویں رمضان کو لیلتہ القدر سمجھتے ہیں ۔ اس رات کا تعین اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس لئے نہیں کیا گیا ہے تا کہ شب قدر کی فضیلت سے فیض اٹھانے کے شوق میں لوگ زیادہ سے زیادہ راتیں عبادت میں گزاریں اور کسی ایک رات پر اکتفانہ کریں ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ۔ ”جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور اللہ کے اجر کی خاطر عبادت کے لئے کھڑا رہا ہے ۔ “ روزہ انسان کو بہت سے گناہوں سے محفوظ بھی رکھتا ہے اور بہت سے گناہوں کا کفارہ بھی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ۔ ”روزہ ڈھال ہے ۔“ یعنی جس طرح ڈھال انسان کو دشمن کے حملوں سے محفوظ کر دیتی ہے اس طرح روزہ بہت سے گناہوں سے بچا لیتا ہے ۔ دوسری طرف اگر کسی سے گناہ ہو جائے تو روزہ کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا تین دن کے روز ے رکھے ۔ اسی طرح حج کے دوران کسی جانور کا شکار کر بیٹھے تو اس کا کفارہ قربانی کی صورت میں مقرر ہے لیکن اگر قربانی نہ دے سکے تو قربانی کے بدلے روزے رکھنے کا حکم ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ روزہ گناہ سے بچاتا ہی نہیں بلکہ بعض گناہوں کو معاف بھی کرا دیتا ہے

حضرت امام حسن علیہ السلام کی سوانح حیات پر مختصرنظر

بسم الله الرحمٰن الرحیم :

حضرت امام حسن علیہ السلام کی سوانح حیات پر مختصرنظر:

 والدین: حضرت امام حسن علیہ السلام کے والد ماجد حضرت امام علی علیہ السلام اور آپ کی والدہٴ ماجدہ حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیہا ہیں۔ آپ اپنے والدین کی پہلی اولاد ہیں ۔

تاریخ وجائے پیدائش: حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت   ۳   ھ رمضان المبارک کی پندرہویں تاریخ کو مدینہ منورہ میںہوئی۔ مشہور تاریخ داں جلال الدین نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ آپ کی صورت پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے بہت ملتی تھی

پرورش: حضرت امام حسن علیہ السلام کی پرورش آپ کے والدین اور نانا رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زیر نظر ہوئی۔ اور ان تینوں عظیم شخصیتوں نے مل کر امام حسن علیہ السلام کے اندر انسانیت کے تمام اوصاف کو پیداکیا

حضرت امام حسن علیہ السلام کا دورہٴ امامت:

شیعہ مذہب کے عقیدہ کے مطابق امام پیدائش سے ہی امام ہوتاہے لیکن وہ اپنے سے پہلے والے امام کی وفات کے بعد ہی عہدہٴ امامت پر فائز ہوتا ہے لہٰذا حضرت امام حسن علیہ السلام بھی اپنے والد بزرگوار حضرت امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد عہدہٴ امامت پر فائز ہوئے

 جب آپ نے اس مقدس منصب پر فائز ہوئے تو چاروںطرف ناامنی پھیلی ہوئی تھی اور اس کی وجہ آپ کے والد کی اچانک شہادت تھی۔ لہٰذا معاویہ نے جو کہ شام نامی صوبہ کا گورنر تھا اس موقع سے فائدہ اٹھا کر بغاوت کربیٹھا ۔ امام حسن علیہ السلام کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھ غداری کی ، انھوں نے مال ودولت ،عیش و آرام وعہدہ کے لالچ میں معاویہ سے سانٹھ گانٹھ کر لی ۔ ایسی صورت میں امام حسن علیہ السلام کے سامنے دو راستے تھے ایک تو یہ کہ دشمن کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے اپنی فوج کے ساتھ شہید ہو جائیں یا دوسرے یہ کہ اپنے وفادار دوستوں اور فوج کو قتل ہونے سے بچا لیں اوردشمن سے صلح کرلیں۔ اس صورت میں امام نے اپنے حالات کا صحیح جائزہ لیا اور سرداروں کی بے وفائی اور فوجی طاقت کی کمی کی وجہ سے معاویہ سے صلح کرنا ہی بہتر سمجھا۔

صلح کے شرائط:

(۱) معاویہ کو اس شرط پر حکومت منتقل کی جاتی ہے کہ وہ الله کی کتاب ،پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے نیک جانشینوں کی سیرت کے مطابق کام کرے گا۔

(۲) معاویہ کے بعد حکومت امام حسن علیہ السلام کی طرف منتقل ہوگی اور امام حسن علیہ السلام کے اس دنیا میں موجود نہ ہونے کی حالت میںحکومت امام حسین علیہ السلام کو سونپی جائے گی ۔

(۳) نماز جمعہ کے خطبے میں امام علی علیہ السلام پر ہونے والا سب وشتم ختم کیا جائے اور آپ کو ہمیشہ اچھائی کے ساتھ یاد کیا جائے۔

(۴ ) کوفہ کے بیت المال میں جو مال موجود ہے اس پر معاوہ کاکوئی حق نہ ہوگا ،معاویہ ہر سال بیس لاکھ درہم امام حسن علیہ السلام کو بھیجے کا اور حکومت کی طرف سے ملنے والے مال میں بنی ہاشم کو بنی امیہ پر ترجیح دے گا، جنگ جمل وصفین میں حضرت علی علیہ السلام کی فوج میں حصہ لینے والے سپاہیوں کے بچوں کے درمیان دس لاکھ درہم تقسیم کئے جائیں اور یہ رقم ایران کے دارب گرد نامی صوبہ کی درآمد سے حاصل کئے جائیں۔

(5) الله کی زمین پررہنے والے تمام انسانوں کو امان ملنی چاہئے، چاہے وہ شام کے رہنے والے ہوں یا یمن کے، حجاز میں رہتے ہوںیا عراق میں، کالے ہوں یا گورے۔معاویہ کو چاہئے کہ وہ کسی بھی شخص کو اس کے ماضی کے برتاؤ کی وجہ سے کوئی سزا نہ دے، اہل عراق کے ساتھ دشمنوں والا رویہ اختیار نہ کرے، حضرت علی علیہ السلام کے تمام ساتھیوں کی مکمل طور پر حفاظت کی جائے، امام حسن علیہ السلام ،امام حسین علیہ السلام وپیغمبر اسلام کے خانوادے سے متعلق کسی بھی شخص کی کھلے عام یا پوشیدہ طور پر برائی نہ کی جائے۔

 حضرت امام حسن علیہ السلام کے اس صلح نامہ سے معاویہ کے چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو الٹ دیا اور لوگوں کو اس کے اصلی چہرے سے آشنا کرایا

 

کونسا عمل قابل قدر ہے (محمد حسن جوہری)

بسم الله تعالی

کونسا علم قابل قدر هے؟

              علم وآگهی کو کسی اور مذھب نے اتنی اهمیت نهیں دی  جتنی اهمیت اسلام نے اس لیئے دی هے ۔جو امتیازات اس آسمانی دین کو حاصل هیں ان میں سے ایک بڑا امتیاز یه هے که مختلف ابعاد میں اس دین کے مبانی کوعلم ومعرفت اور تفکر وتعقل تشکل دیتے هیں ۔اسی بنیاد پر قرآن وحدیث میں هر دوسری چیز سے زیاده اس حقیقت کی ترجمانی کرنے والی اصطلاحات پر توجه دی گئی هے جیسے علم ،تعقل وتفقه وغیره۔

              قرآن کریم میں ،علم ، کا لفظ 105مرتبه آیاهے اور مختلف صورتوں ﴿جیسے یعلمون ،تعلمون وغیره میں  770 مرتبه سے زیاده استعمال هواهے اسی طرح اس آسمانی کتاب میںمختلف صورتوں میں 49مرتبه عقل17 ،مرتبه فکراور 20 مرتبه فقه کے مادے سے کام لیا گیاهے۔

              فرانس سے تعلق رکھنے والے مصنف ،ژول لابوم،نے قرآن کریم کے ترجمه پر مقدمه تحریر کرتے هوئے اسلام کے باره امتیاز کا ذکر کیا هے ان میں سے ایک امتیاز اسلام میں علم اور عقل کو دی جانے والی خصوصی اهمیت هے ا سلام سے پهلے مختلف ادیان کے پیرو کار یه سمجھا کرتے تھے که عقل اور دین ایک دوسرے سے ناموافق هیں اور یه باهم موافق هو بھی نهیں سکتے،کیونکه دین کا تعلق عقل اورمنطق سے ماوائ ایک دوسرے هی دنیاسے هے۔

              هم اسلام کی نگاه میں عقل اور علم کی قدر وقیمت کے بارے میں گفتگو کا اراده نهیں رکھتے،اس موضوع پرکرت سے اظهار خیال کیا جاتاهے دین اسلام میں علم ودانش کی ارفع اهمیت کے اظهار کے لئے درج ذیل آیت هی کو پیش کرنا کافی هے،

              ،انّ شر الدواب عند الله الصم البکم الذین لا یعقلون،،الله کے نذدیک بدترین اهل زمین وه بهرے اور گونگے هیں جو عقل سے کام نهیں لیتے هیں﴿سوره انفال٨،آیت٢٢﴾۔

ٰ              یه آیت صاف الفاظ میں اعلان کرتی هے که جاهل لوگ اور وه افرادجو عقل وتفکر کی نعمت سے محرام هیں خداکے نذدیک تمام اهل ارض سے بدتر هیں ۔

همارے خیال میں علم وآگهی کی اهمیت اور قدر وقیمت واضح کرنے کے لئے اس سے بهتر کوئی تعبیر هیں لائی جاسکتی۔جی هاں اسلام کی نظرمیںعلم وآگهی کی اهمیت هر قسم کی شک وشبه سے مبره هے۔البته جس بات کو زیاده اهمیت دینے کی ضرورت هے اور جس کا غورسے جائزه لیاجانا چاهئے وه یه هے که اسلام کس علم ودانش اور کونسے علماء ودانشوروں کی مدح وستائش کرتا هے، اور اس کی اس قدر تعریف وتمجید کا فلسفه کیا هے ؟

              وه کونسا علم ودانش هے جو جو پیغمبر (ص) کے فرمان کے مطابق ،تمام فضائل کی بنیاد هے ﴿راس الفضائل العلم﴾۔جس کے مالک کاسونااسے محروم کی  نمازوںسے بهترهے﴿نوم مع علم خیرمن جھل﴾بحارالانوار،ج،١،ص٥٨١۔جس کی معمولی مقدار کثیر عبادتون سے افضل هے﴿قلیل من العلم خیر من کثیرالعبادۃ﴾بحارالانوار،ج،١،ص٥٨١۔جس کا حصول هر مسلمان مرد وزن پرواجب هے ﴿طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ﴾بحارالانوارج،١،ص٧٧١۔اور امام جعفر صادق (ع) سے کے فرمان کے مطابق جس کا حاصل کرنا اتنا ضروری هے که چاهئے اس راه میں خون بهانا پڑے اور سمندر عبور کرنا پڑیں﴿ لو علم النا س ما فی العلم لطلبوه ولو سفک المھج وخوج الجج ﴾بحارالانوار،ج،١،ص177۔جس کا حصول بهر صورت ضروری هے ﴿طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم الا انّ الله یجب بغاۃ العلم﴾بحارالانوار،ج،١،ص185۔

              کونسا طالب علم اس عظیم درجه پر فائز هو گا جس کے متعلق پیغمبر اسلام (ص)  فرما تے هیں که زمین وآسمان کے درمیان جو کچھ هے وه اس کے لئے دعاگو هے﴿وانّه یستغفرلطالب علم فی السمائ ومن فی الارض حتی الحوت فی البحر﴾بحارالانوار،ج،١،ص٤٦١۔اور ایسا علم جس کے زریعے اسلام کو زنده کرے اگر اس کی حصول کے دوران اس کی موت واقع هو جائے تو جنت میں اس کے اور انبیائ الھی کے درمیان صرف ایک درجه کا فاصله هوگا ﴿من جائ ه الموت وھو یطلب العلم لیحی به الاسلام کان بینه وبین الانبیائ درجۃ واحدۃ فی الجنۃ﴾بحارالانوار،ج،١،ص184۔وه جاهل لوگوں کے درمیان ایسا هے جیسے مردوں کے درمیان ایک زنده﴿طالب العلم بین الجھال کاالحی بین الاموات﴾بحارالانوار،ج،١،ص١٨١۔اور حضرت علی  کے ارشاد کے مطابق راه خدا کے مجاهدوں کے مانند هے ﴿ الشاخص فی طلب العلم کا المجاھد فی سبیل الله﴾بحارالانوار،ج،١،ص179۔

              وه کونسا عالم هے جس کے بارے میں کها گیا هے که اس کے قلم کی سیاهی شهدائ کے خون سے افضل هے ﴿اذاکان یوم القیامۃ جمع الله عزوجل الناس فی صعید واحدووضعت الموازین فتوزن دمائ الشهدائ مع مداد العلمائ فیر جع مداد العلمائ علی دمائ الشهدا ئ﴾ بحارالانوار،ج،١،ص14۔جو وارث انبیائ هے ﴿ان ّ لعلمائ ورثۃ الانبیائ﴾بحارالانوار،ج،٢،ص92۔اور جو پیغمبر اسلام (ص)  کے ارشاد کے مطابق بعض انبیائ ماسبق کے مانند عظمت اور منزلت کا مالک هے﴿علمائ امتی کا نبیائ بنی اسرائل﴾ بحارالانوار،ج،٢،ص٢٢۔ حد یه هے که اس پر نگاه ڈالنا بھی عبادت میں شمار هوتاهے ﴿ النظر فی وجه العالم حباله عبادۃ ﴾بحارالانوار،ج،١،ص205۔

              اور امام جعفر صادق (ع) کے بقولجس کی موت اسلام کی دیوار میں ناقابل تلافی دڑاڑڈال دیتی هے﴿اذامات المئومن الفقیه ثلم فی الاسلام ثلمۃ لایسدھا شیئی﴾بحارالانوار،ج،١،ص220۔اور اما م محمد باقر(ع) کے فرمان کے مطابق ایسا عالم جو اپنی علم سے مستفید هو ستر هزار عابدوں سے برتر هے ﴿عال ینتفع علمه افضل من عبادۃ سبعین الف عابد﴾بحارالانوار،ج،١،ص18۔ یهی نهیں بلکهان کے علاوه بھی دسیوں فضیلتوں کا مالک هے،مختصر یه که یه جانناکه وه کونسا علم هے جسے اسلام اتنی اهمیت دیتاهے اسکے عالم اور اسکے چلب گار کی اس قدر عظمت اور منزلت کا قائل هے ایک انتهائی اور اهم مسئله هے۔

      علماء کی قدر وقیمت کا پیمانه

              اسلام علم ودانش کو بهت زیاده اهمیت دیتاهے لیکن محض علم کی زیادتی کی وجه سے کسی انسان کی عظمت کا قائل نهیں هوتا بلکه اس کسو ٹی پر انسانوں کو پرکھتاهے که علم وآگهی نے ان کے اندر کتنا حساس ذمداری پدا کیا هے ۔اسلام ایسے هی علم ودانش کو قدر کی نگاه سے دیکھتا هے جو انسانوں کو ذمدار بنایئے اور اسی عالم اور طالب علم کو محترم سمجھتاهے جس میں ذمداری اور فریضه کی ادائیگی کا احساس پایاجائے۔

              اسلام معاشرے میں جو علمائ ودانشوروں کی صرف اس بنیاد پر تعظیم وتکریم کا قائل نهیں که انهوں نے اپنی شخصی ذمداریوں پر عمل کیاهے اور اپنے ذاتی کردار کی تعمیر میں کامیاب هوئے هیں بلکه وه اس بات کو زیاده اهمیت دیتاهے که انهوں نے اپنے اجتماعی ذمداریوں پر کتنا عمل کیا هے اور معاشرے میں موجود خرابیوں کے خلاف کیا کردار اداکیا هے۔

              اسلام کی نظر میں عالم کی ذمداری فقط اتنی نهیں که وه محض اپنی اصلاح میں مصروف رهے،بلکه اسے معاشرے کی تعمیر وترقی میں بھی حصه دار هونا چاهئے اور معاشرے میں حق وعدالت کے قیام اور اسے هر قسم کی برائیوں کے خاتمے کے لئے حتی المقدور اپنی کوششوں کو بروئے کار لانا چاهئے، چنانچه اسلامی علوم کی تحصیل کو اسلامی معاشرے کی تعمیر کا مقدمه سمجھتا هے ۔ارشاد الهی هے :

              ٫٫ فلو نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذر وا قومھم اذا رجعو الیھم لعلھم یحذرون ،،

              ٬٬ تو هر گروه میں سے ایک جماعت اس کام کے لئے کیوں نهیں نکلتی هے که دین کا علم حاصل کرے اور پھر اپنی قوم کی طرف پلت کر آئے تو اسے عذاب الهی سے ڈڑائے که شاید وه اسی طرح ڈڑ نے لگیں﴿ سورۃ توبه ٩ ۔آیت 122﴾ ۔حدیث کی کتابوں میں علمائ اور دانشوروں کو ایسے القاب سے مخاطب کیا گیا هے جو انکی عظیم الشان معاشرتی ذمه داریوں کے عکاس هیں مثلاً بعض احادیث میں پیغمبر (ص)  کے جانشین اور انبیائ کے وارث کے طور پر عالم کا تعارف کراگیاهے۔٫٫منیۃ المرید ،،میں شهید ثانی پیغمبرا سلام کا قول  نقل کرتے هیں که آپ نے فرمایا :خدا میرے جانیشوں پر رحمت فرمائے،حضرت سے پو چھا گیا :آپ یه کن لوگوں کے بارے میں فرما رهے هیں ؟

              آنحضرت (ص)  نے فرمایا :وه لوگ جو میرے قوانین کو ذنده کرتے هیں اور لو گوں کو ان کی تعلیم دیتے هیں ﴿منیۃ المرید ،ص92﴾  امام جعفر صادق  (ع) کا ارشاد بھی هے که علمائ انبیائ کے وارث هیں ،بحار الانوار ج٢،ص٢٢﴾۔حد تو یه هے که پیغمبر اسلام  علمائ اسلام کے  مقام ومنزلت کو گذشته امتوں کے بعض انبیائ کے برابر سمجھتے هیں  ،بحار الانوار ج٢،ص٢٢﴾۔ ظاهر بات هے که کوئی عالم اس وقت انبیا ئ کے ،،وارث ،اور خلیفه قرار پا سکتا هے جب وه انبیائ الهی کے مانند معاشرتی خرابیوں کو گمراهیوں اور نا انصافیوں کے خلاف حتی الامکان نبرد آزماهو وگرنه انبیائ الهی کی لائی هوئی تعلیامت کا صرف حصول هی کسی کو ان القاب کا حقدار نهیں بنا تا ۔

      محافظ وپاسبان

              امام جعفر صادق (ع) علامئ کو محافظ وپاسبان ، سے تشبیه دیتے هوئے فرماتے هیں : علمائ شیعتنا مرابطون با لثغر الذی یلی ابلیس و عفاریته  یمنعونھم عن الخروج علی ضعفا وشیعتنا ،،علما ئ شیعه وه محافظ هیں جو هما رے ضعیف پیرو کا روں کو  شیطا ن کی یلغار اور اسکی مکاریوں سے محفوظ رکھتے هیں ۔﴿بحا ر لانوار ج٢،ص٥﴾

              اسلام کے قلعے

              امام موسی  کاظم (ع) مسلمان عالم اور فقیه کو اسلام کا قلعه کهتے هیں ٫٫اذا مات المومن  وثلم فی الاسلام ثلمه لا یسدھا شئی لان المومنین الفقھا ئ حصون الاسلام ،،جب کوئی مومن ﴿فقیه ﴾ فوت هو تا هے تو اور اس کے مرنے سے اسلام اسلام میں ایسا رخنا پڑ تا هے جسے کوئی شئی پُر نهیں کرسکتی ۔﴿اصول کافی ج١،ص38﴾۔

              اس روایت میں مسلمان عالم کو اسلام کے مظبوط قلعه سے تشبیه دی گئی هے جو اسلامی معاشرے میں دشمنوں کے نفوز میں رکاوٹ هو تے هیں ۔ اور ایسے عالم کی موت اس مظبوط قلعے میں ایسا شگاف ڈال دیتی هے جسے پر نهیں کیا جاسکتا۔

      ستر عابدوں سے زیاده با فضیلت

              اسلام ایک عابد کے مقابله میںایک عالم کو زیا ده بافضیلت قرار دیتاهے،اسکی وجه یه هے که عابد صرف اپنی ذات کی صلاح میں مصروف رهتاهے جبکه عالم اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے کی تعمیر وتهذیب کی ذمه داری کو بھی قبول کرتا هے ،اس حقیقت پر بعض رویات میں روشنی ڈالی گئی هے ۔

    ١۔  پیغمبراسلام (ص)  فرماتے هیں : فضل العالم علی العابد سبعین درجۃ ،بین کل درجتین حضر الفرس سبعین عاما ً وذالک ان الشیطٰن یدع بدعۃ للناس فیبصرھا العالم فینھا عنھا والعابد مقبل علی عبادته لا یتوجه لھا ولا یعرفھا ،،عالم عابد ستر درجه ﴿جس میں سے هر درجه گھو ڑے کے اپنی پوری رفتار کے ساتھ ستر برس تک دوڑ نے کی مسافت کے برابر هے ﴾برتری کا مالک هے اور اس برتری کی وجه یه هے جب کبھی بھی شیطن معاشرے میں کسی بھی بدعت کو پیدا کرتا هے تو عالم اسے دیکھ کر اسکے خلاف جهاد کرتا هے جبکه عابد اپنی عبادت میں مگن رهتاهے اور اسے بدعت سرے سے نظر هی نهیں آتی اور اسے اسکا علم هی نهیں هوتا ،﴿بحا ر لانوار ج٢،ص24﴾

٢۔  امام رضا (ع)فرماتے هیں :جب قیامت برپا هوگی تو عابد کے بارے میں کها جائیگا که بهت اچھا انسان تھا ،صرف اپنی نجات کے لئے کوششوں میں مصروف رهتاهے٫٫الا ان الفقیه من افاض علی الناس خیره وانقذھم من اعدائھم،،متوجه رهو کی فقیه وه شخص هے جو معاشرے کی خدمت کرتا هے ،جس کا وجود سماج کے لئے سود مند هوتاهے اور جو لوگون کو دشمنوں کی پنجے سے نجات دلاتا هے ایسے شخص سے روز قیامت کها جا ئے گا ،اے وه جو خاندان رسالت سے تعلق رکھنے والے بے سر پرستوں کے کفیل تھے اور جنهوں نے ان ضعیف دوستوں کی راهنمائی کی تھی میدان قیامت میں تھیڑو اوران لوگوں کی شفاعت کرو جو تمهارے علم ودانش سے بهره ور هوئے تھے ،﴿بحا ر لانوار ج٢،ص٥﴾

      نتیجه

              اس وضاحت کی ضرورت نهیں که ٫٫وارث انبیائ ٬٬ معاشے کی محافظ اور اسلام کے قلعے ،جیسے القابات اورعابد پر عالم کی برتری کے بارے میںآنے والی روایات اس حقیقت کی عکاس هیں که اسلام کے کاندهوں پر سنگین سماجی ذمه داریاں عائد هوتی هیں اور اسلام اسگروه کی جس قدر عظمت اور منزلت کا قائل هے وه اس صورت میں هے جب وه اپنے ان ذمه داریوں کو ادا کریں اور اس تعریف وتمجید میں وه علمائ قطعاشامل نهیں جو معاشرے میں اپنی ذمه داریاں ادا نهیںکرتے۔

اپنے نظریات اور انتقادات ہمیں میل کریں (smsshm@gmail.com - shams_light96@yahoo.com) تاکہ ہم اس وبلاگ کو آپ لوگوں کے مدد سے بہتر سے بہتر بنا سکیں۔ شکریہ