ولادت با سعادت نهمین ستاره درخشان آسمان اهلبیت
حضرت امام محمد تقی (جواد الائمه) علیه السلام
بر تمام مسلمانان و شیعیان جهان مبارک
سالروز ولادت امام جواد (ع)
تمام مسلمانان اور شیعیان جهان کو مبارک هو
مدیریت وبلاگ
۱۲۵۹۔ ابراہیم بن ابی محمود: میں نے امام رضا (ع) سے عرض کیا کہ فرزند رسول (ص) ہمارے پاس امیراالمومنین (ع) کے فضائل اور آپ کے فضائل میں بہت سے روایات ہیں جنہیں مخالفین نے بیان کیا ہے اور آپ حضرات نے نہیں بیان کیا ہے کیا ہم ان پر اعتماد کرلیں؟
فرمایا ابن ابی محمود! مجھے میرے پدر بزرگوار نے اپنے والد اور اپنے جد کے حوالہ سے بتایا ہے کہ رسول اکرم (ص) کا ارشاد ہے کہ جس نے کسی کی بات پر اعتماد کیا گویا اس کا بندہ ہوگیا۔ اب اگر متکلم اللہ کی طرف سے بول رہا ہے تو یہ اللہ کا بندہ ہوگا اور اگر ابلیس کی بات کہہ رہا ہے تو یہ ابلیس کا بندہ ہوگا۔
اس کے بعد فرمایا : ابن ابی محمود! ہمارے مخالفین نے ہمارے فضائل میں بہت روایات وضع کی ہیں اور انہیں تین قسموں پر تقسیم کیا ہے ایک حصہ غلو کا ہے۔ دوسرے میں ہمارے امر کی توہین اور تیسرے میں ہمارے دشمنوں کی برائیوں کی صراحت ہے۔
لوگ جب غلو کی روایت سنتے ہیں تو ہمارے شیعوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہماری ربوبیت کے قائل ہیں اور جب تقصیر کی روایات سنتے ہیں تو ہمارے بارے میں یہی عقیدہ قائم کرلیتے ہیں اور جب ہمارے دشمنوں کی نام بنام برائی سنتے ہیں تو ہمیں نام بنام گالیاں دیتے ہیں جبکہ پروردگار نے خود فرمایا ہے کہ غیر خدا کی عبادت کرنے والوں کے معبودوں کو برا نہ کہو ورنہ وہ عداوت میں بلا کسی علم کے خدا کو بھی برا کہیں گے۔
ابن ابی محمود! جب لوگ داہنے بائیں جارہے ہیں تو جوہمارے راستہ پر رہے گا ہم اس کے ساتھ رہیں گے اور جو ہم سے الگ ہوجائے گا ہم اس سے الگ ہوجائیں گے۔ کم سے کم وہ بات جس سے انسان ایمان سے خارج ہوجاتا ہے یہ ہے کہ ذرہ کو گٹھلی کہہ دے اور اسی کو دین بنالے اور اس کے مخالف سے برائت کا اعلان کردے۔
ابن ابی محمود! جو کچھ میں نے کہا ہے اسے یاد رکھنا کہ اس میں میں نے دنیا وآخرت کا سارا خیر جمع کردیا ہے۔ (عیون اخبار الرضا (ع) ۱ ص ۳۰۴ / ۶۳ ، بشارۃ المصطفی ص ۲۲۱)
۱۔ سعد الخیر
۱۲۸۶۔ ابوحمزہ: سعد بن عبدالملک جو عبدالعزیز بن مروان کی اولاد میں تھے اور امام باقر(ع) انہیں سعد الخیر کے نام سے یاد کرتے تھے ۔ ایک دن امام باقر(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عورتوں کی طرح گریہ کرنا شروع کردیا۔ حضرت نے فرمایا کہ سعد! اس رونے کا سبب کیا ہے؟ عرض کی کس طرح نہ رؤں جبکہ میرا شمار قرآن مجید میں شجرہ ملعونہ میں کیا گیا ہے ۔
فرمایا کہ تم اس میں سے نہیں ہو ۔ تم اموی ہو لیکن ہم اہلبیت میں ہو ۔
کیا تم نے قرآن مجید میں جناب ابراہیم (ع) کا یہ قول نہیں سنا ہے ۔
“جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھے سے ہوگا“۔(اختصاص ص ۸۵)
۲ ابوذر
۱۲۸۳۔ رسول اکرم (ص): ابوذر ! تم ہم اہلبیت سے ہو ۔ (امالی طوسی ۵۲۵ / ۱۱۶۲ ، مکارم اخلاق ۲ ص ۳۶۳ / ۲۶۶۱ ، تنبیہ الخواطر ۲ ص ۵۱ روایت ابوذر)
۳۔ابوعبیدہ
۱۲۸۴۔ ابوالحسن : ابوعبیدہ کی زوجہ ان کے انتقال کے بعد امام صادق (ع)کی خدمت میں آئی اور کہا کہ میں اس لئے رو رہی ہوں کہ انہوں نے غربت میں انتقال کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ غریب نہیں تھے۔ وہ ہم اہلبیت میں سے ہیں۔ (مستطرفات السرائر ۴۰/ ۴)
۴۔ راہب بلیخ
۱۲۸۵۔ حبہ عرنی: جب حضرت علی(ع) بلیخ نامی جگہ پر فرات کے کنارہ اترے تو ایک راہب صومعہ سے نکل کر آیا اور اس نے کہا کہ ہمارے پاس ایک کتاب ہےجو آباو اجداد سے وراثت میں ملی ہے اور اسے اصحاب عیسی بن مریم نے لکھا ہے۔میں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ فرمایا وہ کہاں ہے لاؤ۔ اس نے کہا اس کا مفہوم یہ ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اس خدا کا فیصلہ ہے جو اس نے کتاب میں لکھ دیا ہے کہ وہ مکہ والوں میں ایک رسول بھیجنے والا ہے جو انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے گا۔ اللہ کا راستہ دکھائے گا اور نہ بداخلاق ہوگا اور نہ تند مزاج اور نہ بازاروں میں چکر لگانے والا ہوگا۔ وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دے گا بلکہ عفو و درگذر سے کام لے گا۔ اس کی امت میں وہ حمد کرنے والے ہوں گے جو ہر بلندی پر شکر پروردگار کریں گے اور ہر صعود و نزول پر حمد خدا کریں گے ۔ ان کی زبانیں تہلیل و تکبیر کے لئے ہموار ہوں گی۔ خدا اسے تمام دشمنوں کے مقابلہ میں امداد دے گا اور جب اس کا انتقال ہوگا تو امت میں اختلاف پیدا ہوگا۔ اس کے بعد پھر اجتماع ہوگا اور ایک مدت تک باقی رہے گا۔ اس کے بعد ایک شخص کنارہ فرات سے گذرے گا جو نیکیوں کا حکم دینے والا اور برائیوں سے روکنے والا ہوگا۔ حق کے ساتھ فیصہ کرے گا اور اس میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کرے گا۔ دنیا اس کی نظر میں تیز و تند ہواؤں میں راکھ سے زیادہ بے قیمت ہوگی اور موت اس کے لئے پاس میں پانی پینے سے بھی زیادہ آسان ہوگی۔ اندر خوف خدا رکھتا ہوگا اور باہر پروردگار کا مخلص بندہ ہوگا خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہ ہوگا۔
اس شہر کے لوگوں میں سے جو اس نبی کے دور تک باقی رہے گا اور اس پر ایمان لے آئے گا اس کے لئے جنت اور رضائے خدا ہوگی اور جو اس بندہ نیک کو پالے اس کا فرض ہے کہ اس کی امداد کرے کہ اس کے ساتھ قتل شہادت ہے او راب میں آپ کے ساتھ رہوں گا اور ہر گز جدا نہ ہوں گا یہاں تک کہ آپ کے ہر غم میں شرکت کرلوں۔
یہ سن کر حضرت علی رو دیے اور فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے نظر انداز نہیں کیا ہے اور تمام نیک بندوں کی کتابوں میں میرا ذکر کیا ہے۔
راہب یہ سن کر بے حد متاثر ہوا اور مستقل امیرالمومنین کے ساتھ رہنے لگا یہاں تک کہ صفین میں شہید ہوگیا تو جب لوگوں نے مقتولین کو دفن کرنا شروع کردیا تو آپ نے فرمایا کہ راہب کو تلاش کرو ۔
او رجب مل گیا تو آپ نے نماز جناہ ادا کرکے دفن کردیا اور فرمایا کہ یہ ہم اہلبیت سے ہے اور اس کے بعد بار بار اس کے لئے استغفار فرمایا ۔
(مناقب خوارزمی ص ۲۴۲ ، وقعۃ صفین ص ۱۴۷)
۵۔ سلمان
۱۲۸۷۔ رسول اکرم(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا کہ سلمان ہم اہلبیت سے ہیں اور مخلص ہیں لہٰذا انہیں اپنے لئے اختیار کرلو۔ (مسند ابویعلی ۶ ص ۱۷۷ / ۶۷۳۹ روایت سعدالاسکاف عن الباقر(ع) ۔ا لفردوس ۲ ص ۳۳۷ / ۳۵۳۲ )
۱۲۸۸۔ ابن شہر آشوب: لوگ خندق کھود رہے تھے اور گنگنارہے تھے ۔ صرف سلمان اپنی دھن میں لگے ہوئے تھے اور زبان سے معذور تھے کہ رسول اکرم × نے دعا فرمائی۔
خدایا سلمان کی زبان کی گرہ کھول دے چاہے دو شعر ہی کیوں نہ ہوں۔ چنانچہ سلمان نے یہ اشعار شروع کردیے:
میرے پاس زبان عربی نہیں ہے کہ میں شعر کہوں ۔ میں تو پروردگار سے قوت اور نصرت کا طلب گار ہوں۔
اپنے دشمن کے مقابلہ میں اور بنی طاہر کے دشمن کے مقابلہ میں۔ وہ پیغمبر جو پسندیدہ اور تمام فخر کاحامل ہے۔
تاکہ جنت میں قصر حاصل کرسکوں اور ان حوروں کے ساتھ رہوں جو چاند کی طرح روشن چہرہ ہوں۔
مسلمانوں میں یہ سن کر شور مچ گیا اور سب نے سلمان کو اپنے قبیلہ میں شامل کرنا چاہا تو رسول اکرم(ص) نے فرمایا کہ سلمان ہم اہلبیت سے ہیں ۔(مناقب ۱ ص ۸۵)
۱۲۸۹۔ رسول اکرم (ص) : سلمان ! تم ہم اہلبیت سے ہو اور اللہ نے تمہیں اول و آخر کا علم عنایت فرمایا ہے اور کتاب اول و آخر کو بھی عطا فرمایا ہے ۔ (تہذیب تاریخ دمشق ۲ ص ۲۰۳ روایت زید بن ابی اوفی)
۱۲۹۰۔ امام علی (ع): سلمان نے اول و آخر کا سارا علم حاصل کرلیا ہے اور وہ سمندر ہے جس کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہوسکتا ہے اور وہ ہم اہلبیت سے ہیں ۔ (تہذیب تاریخ دمشق ۶ ص ۲۰۱ روایت ابوالنتجری ۔ امالی صدوق ص ۲۰۹ / ۸ روایت مسیب بن نجیہ ۔ اختصاص ص ۱۱ ، رجال کشی ۱ ص ۵۲ / ۲۵ روایت زرار ، الطرائف ۱۱۹/ ۱۸۳ روایت ربیعہ السعدی ، الدرجات الرفیعہ ص ۲۰۹ روایت ابولنجتری)
۱۲۹۱۔ ابن الکواء : یا امیرالمومنین (ع) ! ذرا سلمان فارسی کے بارے میں فرمایئے
فرمایا کیا کہنا ۔ مبارک ہو ۔ سلمان ہم اہلبیت سے ہیں ۔ اور تم میں لقمان حکیم جیسا اور کون ہے۔ سلمان کو اول و آخر سب کا علم ہے۔ (احتجاج ۱ ص ۶۱۶ / ۱۳۹ روایت اصبغ بن نباتہ، الغارات ۱ ص ۱۷۷ روایت ابو عمر و الکندی۔ تہذیب تاریخ دمشق ۶ ص ۲۰۴)
۱۲۹۲۔ امام باقر (ع): ابوذر سلمان کے پاس آئے اور وہ پتیلی میں کچھ پکارہے تھے۔ دونوں محو گفتگو تھے کہ اچانک پتیلی الٹ گئی اور ایک قطرہ سالن نہیں گرا۔ سلمان نے اسے سیدھا کردیا ۔ ابوذر کو بے حد تعجب ہوا۔ دوبارہ پھر ایسا ہی ہوا تو ابوذر دہشت زدہ ہوکر سلمان کے پاس سے نکلے اور اسی سوچ میں تھے کہ اچانک امیرالمومنین (ع) سے ملاقات ہوگئی۔
فرمایا: ابوذر ! سلمان کے پاس سے کیوں چلے آئے اور یہ چہرہ پر دہشت کیسی ہے!
ابوذر نے سارا واقعہ بیان کیا ۔
فرمایا ابوذر ! اگر سلمان اپنے تمام علم کا اظہار کردیں تو تم ان کے قاتل کے لئے دعائے رحمت کرو گے اور ان کی کرامت کو برداشت نہ کرسکو گے۔
دیکھو! سلمان اس زمین پر خدا کا دروازہ ہیں جو انہیں پہچان لے وہ مومن ہے اور جو انکار کردے وہ کافر ہے۔ سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔
(رجال کشی ۱ ص ۵۹ / ۳۳ روایت جابر )
۱۲۹۳۔ حسن بن صہیب امام باقر (ع) کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت کے سامنے سلمان فارسی کا ذکر آیا تو فرمایا خبردار انہیں سلمان فارسی مت کہو ۔
سلمان محمدی کہو کہ وہ ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ (رجال کشی ۱ ص ۵۴ / ۲۶ / ۷۱ / ۴۲ روایت محمد بن حکیم، روضۃ الواعظین ص ۳۱۰)
۶۔ عمر بن یزید
۱۲۹۴۔ عمر بن یزید: امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابن یزید ! خدا کی قسم تم ہم اہلبیت سے ہو۔ میں نے عرض کیا۔ میں آپ پر قربان ۔ آل محمد سے؟
فرمایا بیشک انہیں کے نفس سے!
عرض کیا انہیں کے نفس سے؟ فرمایا بیشک انہیں کے نفس سے ! کیا تم نے قران کی یہ آیت نہیں پڑھی ہے “یقینا ابراہیم سے قریب تر ان کے پیرو تھے اور پھر یہ پیغمبر اور صاحبان ایمان ہیں اور اللہ صاحبان ایمان کا سرپرست ہے“۔ آل عمران ۶۸
اور پھر یہ ارشاد الٰہی “جس نے میرا اتباع کیا وہ مجھ سے ہے اور جس نے نافرمانی کی تو بیشک خدا غفور و رحیم ہے“ ابراہیم آیت ۳۶ (امالی طوسی ۴۵ / ۵۳ ، بشارۃ المطفی ۶۸)
۷۔ عیسی بن عبداللہ قمی
۱۲۹۵۔ یونس: میں مدینہ میں تھا تو ایک کوچہ میں امام صادق(ع) کا سامنا ہوگیا۔
فرمایا یونس ! جاؤ دیکھو دروازہ پر ہم اہلبیت میں سے ایک شخص کھڑا ہے۔ میں دروازہ پر آیا تو دیکھا کہ عیسی بن عبداللہ بیٹھے ہیں ۔
میں نے دریافت کیا کہ آپ کون ہیں۔
فرمایا میں قم کا ایک مسافر ہوں۔
ابھی چند لمحہ گذرے تھے کہ حضرت تشریف لے آئے اور گھر میں مع سواری کے داخل ہوگئے۔
پھر مجھے دیکھ کر فرمایا کہ دونوں آدمی اندر آؤ اور پھر فرمایا یونس! شائد تمہیں میری بات عجیب دکھائی دی ہے۔
دیکھو عیسی بن عبداللہ ہم اہلبیت سے ہیں۔
میں نے عرض کی میری جان قربان یقینا مجھے تعجب ہوا ہے کہ عیسی بن عبداللہ تو قم کے رہنے والے ہیں ۔ یہ آپ کے اہلبیت میں کس طرح ہوگئے۔
فرمایا یونس ! عیسی بن عبداللہ ہم میں سے ہیں زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ۔
(امالی مفید۱۴۰ / ۶ ، اختصاص ص ۶۸ ، رجال کشی ۲ ص ۶۲۴ / ۶۰۷)
۱۲۹۶۔ یونس بن یعقوب : عیسی بن عبداللہ امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر جب چلے گئے تو آپ نے اپنے خادم سے فرمایا کہ انہیں دوبارہ بلاؤ۔
اس نے بلایا اور جب آگئے تو آپ نے انہیں کچھ وصیتیں فرمائیں اور پھر فرمایا : عیسی بن عبداللہ ! میں نے اس لئے نصیحت کی ہے کہ قرآن مجید نے اہل کو نماز کا حکم دینے کا حکم دیا ہے اور تم ہمارے اہلبیت میں ہو۔
دیکھو جب آفتاب یہاں سے یہاں تک عصر کے ہنگام پہنچ جائے تو چھ رکعت نماز ادا کرنا اور یہ کہہ کر رخصت کردیا اور پیشانی کا بوسہ بھی دیا ۔
(اختصاص ص ۱۹۵ ، رجال کشی ۲ ص ۶۲۵ / ۶۱۰)
۸۔ فضیل بن یسار
۱۲۹۷۔ امام صادق (ع) : خدا فضیل بن یسار پر رحمت نازل کرے کہ وہ ہم اہلبیت سے تھے۔ (الفقیہ ۴ ص ۴۴۱۔ رجال کشی ۲ ص ۴۷۳ / ۳۸۱ روایت ربعی بن عبداللہ فضیل بن یسار کے غسل دینے والے کے حوالہ سے !
۹۔ یونس بن یعقوب
۱۲۹۸۔ یونس بن یعقوب : مجھ سے امام صادق (ع) یا امام رضا (ع) نے کوئی مخفی بات بیان کی اور پھر فرمایا کہ تم ہمارے نزدیک متہم نہیں ہو ۔ تم ایک شخص ہو جو ہم اہلبیت سے ہو ۔ خدا تمہیں رسول اکرم (ص) اور اہلبیت کے ساتھ محشور کرے اور خدا انشاء اللہ ایسا کرنے والا ہے۔ (رجال کشی ۲ ص ۶۸۵ / ۷۲۴)
(اقتباس از کتاب اہلبیت (ع) قرآن اور سنت کی روشنی میں از محمد محمدی ری شہری)
۱۲۴۲۔ امام علی(ع): خدایا میں غالیوں سے بری اور بیزار ہوں جس طرح کہ عیسی بن مریم(ع) نصاری سے بیزار تھے۔
خدایا انہیں بے سہار کردے اور ان میں سے کسی ایک کی بھی مدد نہ کرنا ۔
(امالی طوسی ۶۵۰ / ۱۳۵۰ روایت اصبغ بن نباتہ ، مناقب ابن شہر آشوب ۱ ص ۲۶۳)
۱۲۴۳۔ امام علی(ع): خبردار ہمارے بارے میں بندگی کی حد سے تجاوز نہ کرنا۔ اس کے بعد ہمارے بارے میں جو چاہو کہہ سکتے ہو کہ تم ہماری حد تک نہیں پہنچ سکتے ہو اور ہوشیار رہو کہ ہمارے بارے میں اس طرح غلو نہ کرنا جس طرح نصاری نے غلو کیا کہ میں غلو کرنے والوں سے بری اور بیزار ہوں۔
(احتجاج ۲ ص ۴۵۳ / ۳۱۴ ، تفسیر عسکری ۵۰/ ۲۴)
۱۲۴۴۔ امام زین العابدین(ع): یہودیوں نے عزیر سے محبت کی اور جوچاہا کہہ دیا تو نہ ان کا عزیر سے کوئی تعلق رہا اور نہ عزیر کا ان سے کوئی تعلق رہا۔ یہی حال محبت عیسی میں نصاری کا ہوا ۔ ہم بھی اسی راستہ پر چل رہے ہیں ۔ ہمارے چاہنے والوں میں بھی ایک قوم پیدا ہوگی جو ہمارے بارے میں یہودیوں اور عیسائیوں جیسی بات کہے گی تو نہ ان کا ہم سے کوئی تعلق ہوگا اور نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہوگا۔(رجال کشی )