چشم انتظار یار

چشم انتظار یار

Install Times new Roman Font on ur Computer
چشم انتظار یار

چشم انتظار یار

Install Times new Roman Font on ur Computer

کونسا عمل قابل قدر ہے (محمد حسن جوہری)

بسم الله تعالی

کونسا علم قابل قدر هے؟

              علم وآگهی کو کسی اور مذھب نے اتنی اهمیت نهیں دی  جتنی اهمیت اسلام نے اس لیئے دی هے ۔جو امتیازات اس آسمانی دین کو حاصل هیں ان میں سے ایک بڑا امتیاز یه هے که مختلف ابعاد میں اس دین کے مبانی کوعلم ومعرفت اور تفکر وتعقل تشکل دیتے هیں ۔اسی بنیاد پر قرآن وحدیث میں هر دوسری چیز سے زیاده اس حقیقت کی ترجمانی کرنے والی اصطلاحات پر توجه دی گئی هے جیسے علم ،تعقل وتفقه وغیره۔

              قرآن کریم میں ،علم ، کا لفظ 105مرتبه آیاهے اور مختلف صورتوں ﴿جیسے یعلمون ،تعلمون وغیره میں  770 مرتبه سے زیاده استعمال هواهے اسی طرح اس آسمانی کتاب میںمختلف صورتوں میں 49مرتبه عقل17 ،مرتبه فکراور 20 مرتبه فقه کے مادے سے کام لیا گیاهے۔

              فرانس سے تعلق رکھنے والے مصنف ،ژول لابوم،نے قرآن کریم کے ترجمه پر مقدمه تحریر کرتے هوئے اسلام کے باره امتیاز کا ذکر کیا هے ان میں سے ایک امتیاز اسلام میں علم اور عقل کو دی جانے والی خصوصی اهمیت هے ا سلام سے پهلے مختلف ادیان کے پیرو کار یه سمجھا کرتے تھے که عقل اور دین ایک دوسرے سے ناموافق هیں اور یه باهم موافق هو بھی نهیں سکتے،کیونکه دین کا تعلق عقل اورمنطق سے ماوائ ایک دوسرے هی دنیاسے هے۔

              هم اسلام کی نگاه میں عقل اور علم کی قدر وقیمت کے بارے میں گفتگو کا اراده نهیں رکھتے،اس موضوع پرکرت سے اظهار خیال کیا جاتاهے دین اسلام میں علم ودانش کی ارفع اهمیت کے اظهار کے لئے درج ذیل آیت هی کو پیش کرنا کافی هے،

              ،انّ شر الدواب عند الله الصم البکم الذین لا یعقلون،،الله کے نذدیک بدترین اهل زمین وه بهرے اور گونگے هیں جو عقل سے کام نهیں لیتے هیں﴿سوره انفال٨،آیت٢٢﴾۔

ٰ              یه آیت صاف الفاظ میں اعلان کرتی هے که جاهل لوگ اور وه افرادجو عقل وتفکر کی نعمت سے محرام هیں خداکے نذدیک تمام اهل ارض سے بدتر هیں ۔

همارے خیال میں علم وآگهی کی اهمیت اور قدر وقیمت واضح کرنے کے لئے اس سے بهتر کوئی تعبیر هیں لائی جاسکتی۔جی هاں اسلام کی نظرمیںعلم وآگهی کی اهمیت هر قسم کی شک وشبه سے مبره هے۔البته جس بات کو زیاده اهمیت دینے کی ضرورت هے اور جس کا غورسے جائزه لیاجانا چاهئے وه یه هے که اسلام کس علم ودانش اور کونسے علماء ودانشوروں کی مدح وستائش کرتا هے، اور اس کی اس قدر تعریف وتمجید کا فلسفه کیا هے ؟

              وه کونسا علم ودانش هے جو جو پیغمبر (ص) کے فرمان کے مطابق ،تمام فضائل کی بنیاد هے ﴿راس الفضائل العلم﴾۔جس کے مالک کاسونااسے محروم کی  نمازوںسے بهترهے﴿نوم مع علم خیرمن جھل﴾بحارالانوار،ج،١،ص٥٨١۔جس کی معمولی مقدار کثیر عبادتون سے افضل هے﴿قلیل من العلم خیر من کثیرالعبادۃ﴾بحارالانوار،ج،١،ص٥٨١۔جس کا حصول هر مسلمان مرد وزن پرواجب هے ﴿طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ﴾بحارالانوارج،١،ص٧٧١۔اور امام جعفر صادق (ع) سے کے فرمان کے مطابق جس کا حاصل کرنا اتنا ضروری هے که چاهئے اس راه میں خون بهانا پڑے اور سمندر عبور کرنا پڑیں﴿ لو علم النا س ما فی العلم لطلبوه ولو سفک المھج وخوج الجج ﴾بحارالانوار،ج،١،ص177۔جس کا حصول بهر صورت ضروری هے ﴿طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم الا انّ الله یجب بغاۃ العلم﴾بحارالانوار،ج،١،ص185۔

              کونسا طالب علم اس عظیم درجه پر فائز هو گا جس کے متعلق پیغمبر اسلام (ص)  فرما تے هیں که زمین وآسمان کے درمیان جو کچھ هے وه اس کے لئے دعاگو هے﴿وانّه یستغفرلطالب علم فی السمائ ومن فی الارض حتی الحوت فی البحر﴾بحارالانوار،ج،١،ص٤٦١۔اور ایسا علم جس کے زریعے اسلام کو زنده کرے اگر اس کی حصول کے دوران اس کی موت واقع هو جائے تو جنت میں اس کے اور انبیائ الھی کے درمیان صرف ایک درجه کا فاصله هوگا ﴿من جائ ه الموت وھو یطلب العلم لیحی به الاسلام کان بینه وبین الانبیائ درجۃ واحدۃ فی الجنۃ﴾بحارالانوار،ج،١،ص184۔وه جاهل لوگوں کے درمیان ایسا هے جیسے مردوں کے درمیان ایک زنده﴿طالب العلم بین الجھال کاالحی بین الاموات﴾بحارالانوار،ج،١،ص١٨١۔اور حضرت علی  کے ارشاد کے مطابق راه خدا کے مجاهدوں کے مانند هے ﴿ الشاخص فی طلب العلم کا المجاھد فی سبیل الله﴾بحارالانوار،ج،١،ص179۔

              وه کونسا عالم هے جس کے بارے میں کها گیا هے که اس کے قلم کی سیاهی شهدائ کے خون سے افضل هے ﴿اذاکان یوم القیامۃ جمع الله عزوجل الناس فی صعید واحدووضعت الموازین فتوزن دمائ الشهدائ مع مداد العلمائ فیر جع مداد العلمائ علی دمائ الشهدا ئ﴾ بحارالانوار،ج،١،ص14۔جو وارث انبیائ هے ﴿ان ّ لعلمائ ورثۃ الانبیائ﴾بحارالانوار،ج،٢،ص92۔اور جو پیغمبر اسلام (ص)  کے ارشاد کے مطابق بعض انبیائ ماسبق کے مانند عظمت اور منزلت کا مالک هے﴿علمائ امتی کا نبیائ بنی اسرائل﴾ بحارالانوار،ج،٢،ص٢٢۔ حد یه هے که اس پر نگاه ڈالنا بھی عبادت میں شمار هوتاهے ﴿ النظر فی وجه العالم حباله عبادۃ ﴾بحارالانوار،ج،١،ص205۔

              اور امام جعفر صادق (ع) کے بقولجس کی موت اسلام کی دیوار میں ناقابل تلافی دڑاڑڈال دیتی هے﴿اذامات المئومن الفقیه ثلم فی الاسلام ثلمۃ لایسدھا شیئی﴾بحارالانوار،ج،١،ص220۔اور اما م محمد باقر(ع) کے فرمان کے مطابق ایسا عالم جو اپنی علم سے مستفید هو ستر هزار عابدوں سے برتر هے ﴿عال ینتفع علمه افضل من عبادۃ سبعین الف عابد﴾بحارالانوار،ج،١،ص18۔ یهی نهیں بلکهان کے علاوه بھی دسیوں فضیلتوں کا مالک هے،مختصر یه که یه جانناکه وه کونسا علم هے جسے اسلام اتنی اهمیت دیتاهے اسکے عالم اور اسکے چلب گار کی اس قدر عظمت اور منزلت کا قائل هے ایک انتهائی اور اهم مسئله هے۔

      علماء کی قدر وقیمت کا پیمانه

              اسلام علم ودانش کو بهت زیاده اهمیت دیتاهے لیکن محض علم کی زیادتی کی وجه سے کسی انسان کی عظمت کا قائل نهیں هوتا بلکه اس کسو ٹی پر انسانوں کو پرکھتاهے که علم وآگهی نے ان کے اندر کتنا حساس ذمداری پدا کیا هے ۔اسلام ایسے هی علم ودانش کو قدر کی نگاه سے دیکھتا هے جو انسانوں کو ذمدار بنایئے اور اسی عالم اور طالب علم کو محترم سمجھتاهے جس میں ذمداری اور فریضه کی ادائیگی کا احساس پایاجائے۔

              اسلام معاشرے میں جو علمائ ودانشوروں کی صرف اس بنیاد پر تعظیم وتکریم کا قائل نهیں که انهوں نے اپنی شخصی ذمداریوں پر عمل کیاهے اور اپنے ذاتی کردار کی تعمیر میں کامیاب هوئے هیں بلکه وه اس بات کو زیاده اهمیت دیتاهے که انهوں نے اپنے اجتماعی ذمداریوں پر کتنا عمل کیا هے اور معاشرے میں موجود خرابیوں کے خلاف کیا کردار اداکیا هے۔

              اسلام کی نظر میں عالم کی ذمداری فقط اتنی نهیں که وه محض اپنی اصلاح میں مصروف رهے،بلکه اسے معاشرے کی تعمیر وترقی میں بھی حصه دار هونا چاهئے اور معاشرے میں حق وعدالت کے قیام اور اسے هر قسم کی برائیوں کے خاتمے کے لئے حتی المقدور اپنی کوششوں کو بروئے کار لانا چاهئے، چنانچه اسلامی علوم کی تحصیل کو اسلامی معاشرے کی تعمیر کا مقدمه سمجھتا هے ۔ارشاد الهی هے :

              ٫٫ فلو نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذر وا قومھم اذا رجعو الیھم لعلھم یحذرون ،،

              ٬٬ تو هر گروه میں سے ایک جماعت اس کام کے لئے کیوں نهیں نکلتی هے که دین کا علم حاصل کرے اور پھر اپنی قوم کی طرف پلت کر آئے تو اسے عذاب الهی سے ڈڑائے که شاید وه اسی طرح ڈڑ نے لگیں﴿ سورۃ توبه ٩ ۔آیت 122﴾ ۔حدیث کی کتابوں میں علمائ اور دانشوروں کو ایسے القاب سے مخاطب کیا گیا هے جو انکی عظیم الشان معاشرتی ذمه داریوں کے عکاس هیں مثلاً بعض احادیث میں پیغمبر (ص)  کے جانشین اور انبیائ کے وارث کے طور پر عالم کا تعارف کراگیاهے۔٫٫منیۃ المرید ،،میں شهید ثانی پیغمبرا سلام کا قول  نقل کرتے هیں که آپ نے فرمایا :خدا میرے جانیشوں پر رحمت فرمائے،حضرت سے پو چھا گیا :آپ یه کن لوگوں کے بارے میں فرما رهے هیں ؟

              آنحضرت (ص)  نے فرمایا :وه لوگ جو میرے قوانین کو ذنده کرتے هیں اور لو گوں کو ان کی تعلیم دیتے هیں ﴿منیۃ المرید ،ص92﴾  امام جعفر صادق  (ع) کا ارشاد بھی هے که علمائ انبیائ کے وارث هیں ،بحار الانوار ج٢،ص٢٢﴾۔حد تو یه هے که پیغمبر اسلام  علمائ اسلام کے  مقام ومنزلت کو گذشته امتوں کے بعض انبیائ کے برابر سمجھتے هیں  ،بحار الانوار ج٢،ص٢٢﴾۔ ظاهر بات هے که کوئی عالم اس وقت انبیا ئ کے ،،وارث ،اور خلیفه قرار پا سکتا هے جب وه انبیائ الهی کے مانند معاشرتی خرابیوں کو گمراهیوں اور نا انصافیوں کے خلاف حتی الامکان نبرد آزماهو وگرنه انبیائ الهی کی لائی هوئی تعلیامت کا صرف حصول هی کسی کو ان القاب کا حقدار نهیں بنا تا ۔

      محافظ وپاسبان

              امام جعفر صادق (ع) علامئ کو محافظ وپاسبان ، سے تشبیه دیتے هوئے فرماتے هیں : علمائ شیعتنا مرابطون با لثغر الذی یلی ابلیس و عفاریته  یمنعونھم عن الخروج علی ضعفا وشیعتنا ،،علما ئ شیعه وه محافظ هیں جو هما رے ضعیف پیرو کا روں کو  شیطا ن کی یلغار اور اسکی مکاریوں سے محفوظ رکھتے هیں ۔﴿بحا ر لانوار ج٢،ص٥﴾

              اسلام کے قلعے

              امام موسی  کاظم (ع) مسلمان عالم اور فقیه کو اسلام کا قلعه کهتے هیں ٫٫اذا مات المومن  وثلم فی الاسلام ثلمه لا یسدھا شئی لان المومنین الفقھا ئ حصون الاسلام ،،جب کوئی مومن ﴿فقیه ﴾ فوت هو تا هے تو اور اس کے مرنے سے اسلام اسلام میں ایسا رخنا پڑ تا هے جسے کوئی شئی پُر نهیں کرسکتی ۔﴿اصول کافی ج١،ص38﴾۔

              اس روایت میں مسلمان عالم کو اسلام کے مظبوط قلعه سے تشبیه دی گئی هے جو اسلامی معاشرے میں دشمنوں کے نفوز میں رکاوٹ هو تے هیں ۔ اور ایسے عالم کی موت اس مظبوط قلعے میں ایسا شگاف ڈال دیتی هے جسے پر نهیں کیا جاسکتا۔

      ستر عابدوں سے زیاده با فضیلت

              اسلام ایک عابد کے مقابله میںایک عالم کو زیا ده بافضیلت قرار دیتاهے،اسکی وجه یه هے که عابد صرف اپنی ذات کی صلاح میں مصروف رهتاهے جبکه عالم اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے کی تعمیر وتهذیب کی ذمه داری کو بھی قبول کرتا هے ،اس حقیقت پر بعض رویات میں روشنی ڈالی گئی هے ۔

    ١۔  پیغمبراسلام (ص)  فرماتے هیں : فضل العالم علی العابد سبعین درجۃ ،بین کل درجتین حضر الفرس سبعین عاما ً وذالک ان الشیطٰن یدع بدعۃ للناس فیبصرھا العالم فینھا عنھا والعابد مقبل علی عبادته لا یتوجه لھا ولا یعرفھا ،،عالم عابد ستر درجه ﴿جس میں سے هر درجه گھو ڑے کے اپنی پوری رفتار کے ساتھ ستر برس تک دوڑ نے کی مسافت کے برابر هے ﴾برتری کا مالک هے اور اس برتری کی وجه یه هے جب کبھی بھی شیطن معاشرے میں کسی بھی بدعت کو پیدا کرتا هے تو عالم اسے دیکھ کر اسکے خلاف جهاد کرتا هے جبکه عابد اپنی عبادت میں مگن رهتاهے اور اسے بدعت سرے سے نظر هی نهیں آتی اور اسے اسکا علم هی نهیں هوتا ،﴿بحا ر لانوار ج٢،ص24﴾

٢۔  امام رضا (ع)فرماتے هیں :جب قیامت برپا هوگی تو عابد کے بارے میں کها جائیگا که بهت اچھا انسان تھا ،صرف اپنی نجات کے لئے کوششوں میں مصروف رهتاهے٫٫الا ان الفقیه من افاض علی الناس خیره وانقذھم من اعدائھم،،متوجه رهو کی فقیه وه شخص هے جو معاشرے کی خدمت کرتا هے ،جس کا وجود سماج کے لئے سود مند هوتاهے اور جو لوگون کو دشمنوں کی پنجے سے نجات دلاتا هے ایسے شخص سے روز قیامت کها جا ئے گا ،اے وه جو خاندان رسالت سے تعلق رکھنے والے بے سر پرستوں کے کفیل تھے اور جنهوں نے ان ضعیف دوستوں کی راهنمائی کی تھی میدان قیامت میں تھیڑو اوران لوگوں کی شفاعت کرو جو تمهارے علم ودانش سے بهره ور هوئے تھے ،﴿بحا ر لانوار ج٢،ص٥﴾

      نتیجه

              اس وضاحت کی ضرورت نهیں که ٫٫وارث انبیائ ٬٬ معاشے کی محافظ اور اسلام کے قلعے ،جیسے القابات اورعابد پر عالم کی برتری کے بارے میںآنے والی روایات اس حقیقت کی عکاس هیں که اسلام کے کاندهوں پر سنگین سماجی ذمه داریاں عائد هوتی هیں اور اسلام اسگروه کی جس قدر عظمت اور منزلت کا قائل هے وه اس صورت میں هے جب وه اپنے ان ذمه داریوں کو ادا کریں اور اس تعریف وتمجید میں وه علمائ قطعاشامل نهیں جو معاشرے میں اپنی ذمه داریاں ادا نهیںکرتے۔

اپنے نظریات اور انتقادات ہمیں میل کریں (smsshm@gmail.com - shams_light96@yahoo.com) تاکہ ہم اس وبلاگ کو آپ لوگوں کے مدد سے بہتر سے بہتر بنا سکیں۔ شکریہ

             

مقالہ محمد حسن جوہری

 

نصیحت

   دنیا میں سب سے آسان کام نصیحت کرنا هے اور سب سے مشکل کام نصیحت پر عمل کرنا هے ۔ میں نے اپنے لئے آسان کام چن لیا هے اور آپ---------- آپ کی مرضی ، مشکل میں پڑیں یا مشکل سے باهر رهیں۔

        نصیحت کا عمل زندگی کی طرح بهت پرا نا هے ۔غالبا پهلے انسان کے پیدا هونے سے پهلے بھی نصیحت کا عمل موجودتھا ۔نصیحت ایک حکم کی طرح نافذ هوتی تھی     ایسے کرو ، ایسے نه کرو ۔وهاں جاو  وهاں نه جاو-اس کا سجده کرو اور اس کے علاوه کا سجده نه کرو    ماں باپ کی اطاعت کرو شیطان کی اطاعت نه کرو ۔غرض یه که نصیحت سنو اور مانتے چلے جا و ۔ زمین کے سفر میںآسمان کی نصیحتیں سنو اور انهیںماننے کا حوصله پیدا کرو ۔

        ماضی کے اوراق میں هم دیکھتے هیں که کبھی کبھی ایک آدمی ، هم میں سے هی ، همارے سامنے ایک بلندی پر کھڑا هوگیا اور ایک رعب دار آواز میںنصیحت کرنے لگ گیا ،کهشرک نه کرو ،زمین پر اکڑ کر نه چلو ، اور وغیره وغیر ه ۔

        ان لوگوں کو کس نے اجازت دی که لوگوں کو خطاب کریں که اے انسانو  غورسے سنو ،ایک وقت آنے والا هے جب تم سے تمهارے اعمال کے بارے میںپوچھا جائے گا ، جب چھپے هوئے راز ظاهر هونگے اور جب انسان کو اس کے اعما لکے مطابق ایک عاقبت ملے گی۔

        بهرحال نصیحتیں چلتی رهتی هیں خطاب جاری رهتے هیں اور سماعتیں بے حس هو جاتی هیں ، نصیحت کرنے وا لے شور مچا تے رهتے هیں که اے محتر م اندھو   آگے قدم نه بڑھانا ، آگے اندھا کنواں هے ، لیکن عقل کے اندھے سنی ان سنی کر کے دھڑا م سے گرتے رهتے هیں ، اور پھر گله هوتا هے که کاش مجھے کوئی لا ٹھی مار کے سمجھا تا که واقعی آگے کنواں هے ، یه لوگ سنتے هیں لیکن ان کے دل پر اثر نهیں هو تا ، یه لوگ دیکھتے هیں لیکن انهیں نظر کچھ نهیں آتا ، یه لوگ فلسفی هیں لیکن بیچا رے سمجھ نهیں سکتے ، ان کے پاس دل هے لیکن حس نهیں سهے، یه لوگ مغرور هیں لیکن ان کی متاع حیات قلیل هے ، یه طاقت سے حکومت کرنا چاهتے هیں ان کے پاس خدمت کا شعور نهیں ، بس اس طرح یه کھیل جاری رهتا هے ۔ آوازیں آرهی هیں که غا فلوسنو غور سے ، گجر کی آواز سنائی دیتی هے ، کا ن دھرو، وقت کا ناقوس بج رها هے ، رحیل کا رواں کے معنی تلاش کرو ۔ بانگ درا کی تفسیر ڈھونڈو، بال جبریل کا مفهوم سمجھو ، لیکن نهیں سننے والوں کے کانوں میں گویا پگھلا هو اسیسه انڈیلا جا چکا هے ، خواهشات کا اودھم مچاهوا هے ۔ نصیحت کی آواز کیسے سنائی دے  ۔ 

        لوگ اب مطمئن هیں که اب کوئی سقراط موجود نهیں ،اچھا هو اکه سعدی رخصت هوگئے ، بھلا هوا اقبال کا که اب وه بھی نهیں ،کچھ لوگوں کے لئے یه امر باعث اطمینان هے که اب نئی نسل پرانے مذهب سے آزادی هورهی هے ۔خوش لوگ اس بات پر که الله نے نبی بھیجنے کا سلسله هی بند فرمادیا ۔

        وه سمجھتے هیں که شاید ان کو نجات مل گئی ، عقیدوتوں اور عقیدوں سے آزادهوگئے نصیحتوں سے ڈرانے والوںسے ، آگاه کرنے والوں سے ، ان کے صرف حال هے نه کوئی فردا نه ماضی ، بس صرف یهی دور هے ، یهی زمانه هے ۔ آینده کوئی حساب  وکتاب نهیں هوگا، الله اپنے گھر میں خوش ، هم اپنے گھرمیں لیکن ، لیکن ایسے نهیں هوسکتا ، پیدا کرنے والے نے زندگی اور موت پیدا کی یه دیکھنے کے لئے که کو ن نصیحت کرتا هے اور کون نصیحت پر عمل کرتا هے ، کون سعادت مند هے جودوسروں تجربات سے فائده حاصل کرتا هے کون هے خوش نصیب جو نصیحت کے چراغ کی روشنی میں زندگی کی تاریکیوں سے آزاد هوجاتا هے اور کون هے وه جو اس زندگی اور اس زندگی کے انعامات سے سرفراز هو تا هے ۔

        نصیحت کا لفظ طلسماتی لفظ هے ، جو زندگی کے سفر میں کسی وقت بھی اپنا جادو جگا سکتا هے ، شرط صرف یه که نصیحت کرنے والا نصیحت کے عمل سے خود کو ئی فائده حاصل نه کرے ، ورنه سب کچھ بیکا ر هوجائے گا ۔ مخلص کی تعریف هی یه هے که آپ  کے ساتھ ، آپ سے زیاده مهربان هو وه جو اپنے آپ کو بھو ل کر آپ کو یاد رکھے وه جو تم سے تمهاری بهبو د کے علاوه کسی اور معاوضے کا متمنی نه هونصیحت کرنے والا مخلص نه هو تو نصیحت بھی ایک پیشه هے اور پیشه ور کی نصیحت ، نصیحت نهیں کهلائی جاسکتی ۔ بهر حال کهنے کا مدعا یه تھا که نصیحت کا عمل قدیم هے ، آسان هے ، هم نے اسے اپنے لئے چن لیا اور اب یه بھی ضروری نهیں که هم هر وقت هر آدمی کو هر طرح کی نصیحت هی کرتے رهیں، بلکه نصیحت کا پهلا اصول یه هے که نصیحت کرنے والا نصیحت سننے والے سے کچھ نه کچھ تعلق ضرور پیدا کرے  بے تعلق نصیحت یا بے تعلق تبلیغ ایسے هے جیسے زبان غیر میں تقریر کرنا ۔

        سب سے موزوں نصیحت تو یهی هے که نصیحت سننے والے میں نصیحت سننے کا شوق هو  ورنه  ورنه  وهی کها نی که ایک دفعه ایک بندر تھا ،بندر اور بیا پاس پاس رهتے تھے پڑوسی تھے بیا سارا سا ل خوبصورت گھونسله بناتا اور سردی میں اس میں آرام کرتا اور بندر تو بس بندر هی تھا ، ایک دفعه هو ایه که بندر سردی می ٹھٹھر رهاتھا اور بیا اپنے آشیا نے میں لطف اندوز هورها تھا ، بیا کو کیا سوجھی که وه بندر کو دیکھ کر نصیحت کرنے لگا ،،بولا، بھا ئی بندر  میں نے تمهیں هزار بار کها تھا که موسم سرما آنے والا هے ۔ اپنے لئے آشیا نه بنا لو ، مگر تم نے ایک نه مانی ،،بندر یه سن کر ناراض هوگیا اس نے کها ٫٫اتنے سے پرندے اور اتنے بڑے بندر کے سامنے زبان کھولتے هو ئے شرم نهیں آتی ؟ تجھے نصیحت کا حق کس نے دیا ؟ لا میں تجھے گھونسله بناکے دکھاو ں،،بندر نے بندروں والا کام کردیا اور بیا کا گھونسله ٹوٹ گیا توڑ دیا گیا    بندر نے اپنا آشیانه نه بنایا اور ناصح کا آشیانه توڑ دیا۔  

        بس یهی انجام کرتے هیں نصیحت پر ناراض هونے والے ناصح کا که کبھی صلیب پر چڑھا دیتے هیں ، کبھی اسے وادی طائف سے گزارتے دیتے هیں کبھی اس پر کربلا ئیں نافذ کردیتے هیں ، اور کبھی دار پرلیکن سلام ودرود هو نصیحت کرنے والوں پر جن کے حوصلے بلند اور عزائم پخته هوتے هیں جو گالیا ں سن کر دعائیں دیتے هیں اور جو غا فلوں سے غفلت کی چادر یں اتار دیتے هیں اور انهیں بے حسی کی نیند سے جگاتے رهتے هیں ۔هم بھی ان لوگوں کے ساتھ عقیدت کے طور پر نصیحت کرنے کا عمل اختیار کرنے کا اراده رکھتے هیں۔

        اس سے پهلے که کوئی نصیحت کی جائے ۔۔یه کهدینا بھی ضرور ی هے که دنیا میں کوئی ایسی نصیحت نهیں جو پهلے کی نه گئی هو کتابیں لائبریریاں نصیحتوں سے بھری هوئی هیں تو کیا کتابیں پڑھ لینا هی کافی هے  نهیں اس کے علاوه بھی کچھ هے بهت کچھ هے   یه وقت کا عبرت کده هے یهاں آنکھ کھو ل چلنا چاهیئے ۔ اپنی من مانی نهیں کرنی چاهیئے ۔ پهلے من مانی کرنے والے کهاں گئے ؟ عشرت کدے عبرت کدے کیوں بن گئے محلات ، کھنڈرات هوگئے ، دنیا میں جھوٹ بولنے والے کیاکیا نشانیاں چھوڑ گئے ،،ویرانیاں هی نشانیاں هیں۔سب سے بڑی نصیحت تو یهی هے که نصیحت سننے کے لئے تیار رهنا چاهئے ، کا ن کھول کر رکھے جائیں ،آنکھیں انتظار سے عاری نه هوں ، دل احساس سے خالی نه هو، عقل کو عقل سلیم بننے میں کسی رکاوٹ سے دوچار نهیں هونے دینا چاهئے ، جب انسان نصیحت سننے پر آماده هوجائے تو اسے بهتی هوئی ندیوں میں کتابیں هی کتابیں نظر آئیں گی ، هرطرف نصیحت هی نصیحت      

ندی راز هے گهراراز پهاڑ کا کا پیغام ، سمندرکے نام رواں دواں ،اپنی منزل مراد کی طرف     نصیحت هے ان لوگوں کے لئے جو اولی الالباب هیں ، ندی هی پر موقوف نهیں،   پها ڑ بھی ایک انسان کے لئے ایک نصیحت آموز داستان رکھتے هیں ، ایک عزم،ایک قوت،ایک داستان دلبری ،  پهاڑوں میںنصیحتیں هیں ،بادلوں میں نصیحتیں هیں    

زمین کے اندر نصیحت ، زمین سے باهر نصیحت ، درختوں  میں زبانیں هیں ، گویائی هے ، نصیحت هے ، جلوه هے جلوگر بھی هے ۔

        زمین کے اندر نصیحت کی ایک داستان دلپذیر میر تقی میر نے ایک رباعی میں پیش فرمائی هے که پرانے قبرستان میں ایک کا سئه سر پر پاو ں جا پڑا،   بس ٹوٹ گیا،اور ساتھ هی یه آواز آئی :

        لیکن اس سے بھی زیاده اثر انگیز بیان بابافرید کے ایک اشلوک میں هے ۔ جس کے پیچھے ایک کهانی هے جو کچھ یوں سی هے :

        ایک دفعه بابافرید اپنے سیلانی دور میں ایک بستی میں سے گزر ے ۔ دیکھا که ایک خوبصورت عورت ایک غریب عورت کو ماررهی هے ، بابافرید نے وجه دریافت فرمائی ،اطلاع ملی که یه امیر عورت ایک عشرت گاه کی مالکه هے اور غریب اس کی ملازمه    بلکه مشاط    اس دن نوکرانی نے مالکن کو کا جل ڈالااو ر اس کے ساتھ کوئی ریت کا ذره بھی تھا جو اس کی خوبصورت آنکھوں میں بڑا تکلیف ده لگا ، اس لئے اس نے خادمه کو مارا  بابافرید اپنے سفر پر گامزن هوگئے  ایک مدت بعد کے واپسی کا سفر شروع هوا او راسی بستی کے قبرستان میں قیام کے دوران بابافرید نے ایک عجیب منظر دیکھا ، ایک چڑیا نے ایک انسانی کھوپڑی میںاپنے بچے دیئے هوئے تھے۔ وه چڑیا آتی اور چونچ میں خوراک لاکر بچوں کو کھلاتی ، بچے کھوپڑی کی آنکھوں سے باهر منه نکالتے اور خوراک لیکر اندر چلے جاتے ، انسانی کھوپڑی کا یه مصرف باباجی کو عجیب سالگا۔انهوں نے یه دیکھنے کے لئے مراقبه کیا که یه کھوپڑی کس آدمی کی هے ،انهیں معلوم هوا که یه تو اسی خوبصورت عورت کی هے جو آنکھوں میں ریت کا ذره برداشت نه کرتی تھی آج اس کی آنکھوں میں چڑیا کے بچے بیٹھے هوئے هیں     

        جوآنکھیں جگ موهنے والی تھیں آج میں نے وه آنکھیں دیکھ لیں، کاجل کا ذره برداشت نه هوا آج پنچھی کے بچے اسی آنکھ میںبیٹھے هیں          

        بهرحال نصیحت هرطرف لکھی گئی هے ، هر سانس نصیحت ، هر جلوه نصیحت ، تنهائی نصیحت ، محفل نصیحت ، ذره ذره اور قطره قطره نصیحت ، قبول کر نے والا هو تو عطا کرنے والا دور نهیں ،ذوق سجده مل جائے تو آستانه مسجود پاس هی هے ، آنکھ منتظر هو تو جلوه بے تاب هو کر سامنے آئے گا ۔خبر دینے والا ایک بڑی خبر لیکر پھر رها هے ، آپ کے لئے، آپ کے فائدے کے لئے ،آپ کی بچت کے لئے ، مخبرکا انتظار کرو آپ میں سے هی آپ کے آس پاس ،جیساانسان ،کوئی انسان، نه جانے کب کهاں بولنا شروع کردے    سماعت متوجه رکھو ، آپ کو اپنے اندر هی سے آواز آسکتی هے دوسروں کی خامیوں پر خوش هونے والو ، کوئی اپنی هی خوبی بیان کرو ، اسلام سے محبت کرنے کا دعوا کرنے والو ، مسلمانوں سے نفرت نه کرو ، آپ کی آنکھ کھٹکنے والے خار کسی اور نگاه کے منظو ر نظر بھی هوسکتے هیں ،نصیحتوں پر ناراض نه هونا چاهئے، بندر اور انسان کا فرق قائم رکھنا چاهئے ﴿کتاب حرف حرف حقیقت سے اقتباس﴾

 

خطبہ زینب سلام اللہ علیہا

خطبہ زینب سلام اللہ علیہا

            اگر یہیں مجلس ختم ہوجاتی تو یزید کی جیت تھی اور جو کچھ اس کے حکم سے ہواتھا وہ قطعی غلط نہیں تھا لیکن زینب (س) نے مجلس کو یہاں ختم ہی نہیں ہونے دیا ،جس چیزکو یزید مسرت سمجھ رہا تھا اسے اس کے لۓ زہر سے زیادہ تلخ بنادیا اور مجلس نشینوں کو یہ بتادیاکہ جواسیر تمہاے سامنے کھڑے ہیں یہ ان کی اولاد ہیں جن کے نام پر یزید شام کے لوگوں پر حکومت کررہا ہے ، انھیں یہ بتادیا کہ اسلام حکومت سے قبل دین ہے حاکم سے لے کر رعیتکی چھوٹی سی فرد تک خدا کےسامنے اپنے کۓ ہوۓ فعل اور اپنی کہی ہوئی بات کا جواب دہ ہے اور یہ بھی آشکار کردیا کہ اسلام تقوے کے پایوں پر استوار ہے نہ طاقت کے پالوں پر ۔[26]

            زینب (‏س)اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراء (س)کی طرح ظالموں کے سامنے قد بلند کرتی ہیں بھے دربار میں خدا کی حمدو ستائش کرتی ہیں اور رسول(ص) و آل رسول (ع) پر درود بھیجتی ہیں اور پھر قرآن کی آیت سے  اپنے خطبہ کا اس طرح آغاز کرتی ہیں :

          " ثم کان عاقبۃ الذین اساؤاالسوای ان کذبوا بآیا ت اللہ ۔۔۔۔"

            یزید تویہ سمجھتا تھا کہ تونے زمین و آسمان کو ہم پر تنگ کردیا ہے تیرے گماشتوں نے ہمیں شہروں شہروں اسیری کی صورت میں پھرایا تیرے زعم میں ہم رسوا اور تو باعزت ہوگیا ہے ؟ تیرا خیال ہے کہ اس کام سے تیری قدر میں اضافہ ہوگیا ہے اسی لۓ ان باتوں پر تکبر کررہا ہے ؟ جب تو اپنی توانائی و طاقت (فوج) کو تیار دیکھتا ہے اور اپنیبادشاہت کے امور کو منظم دیکھتا ہے تو خوشی کے مارے آپے سے باہر ہوجاتا ہے ، تو نہیں جانتا کہ یہ فرصت جو تجھے دی گئی ہے کہ اس میں تو اپنی فطرت کو آشکار کرسکے کیاتو نے قول خدا کو فراموش کردیا ہے << کافر یہ خیال نہ کریں کہ یہ مہلت جو انھیں دی گئی ہے یہ ان کے لۓ بہترین موقع ہے ، ہم نے ان کو اس لۓ مہلت دی ہے تاکہ وہ اپنے گناہوں میں اور اضافہ کرلیں ، پھر ان پر رسوا کرنے والا عذاب نازل ہوگا >> پسر طلقاء کیا یہ عدل ہے تیری بیٹیاں اور کنیزیں باعزت پردہ میں بیٹھیں اور رسول کی بیٹیوں کو تو اسیر کرکے سربرہنہ کرے ، انہیں سانس تک نہ لینے دیا جاۓ ، تیری فوج انھیں اونٹوں پر سوار کرکے شہر بہ شہر پھراۓ ؟ نہ انہیں کوئی پناہ دیتا ہے ، نہ کسی کو ان کی حالت کاخیال ہے ، نہ کوئی سرپرست ان کے ہمراہ ہوتا ہے لوگ ادھر ا‍‌‌دھر سے انہیں دیکھنے کے لۓ جمع ہونے ہیں ، لیکن جس کے دل میں ہمارے طرف سے کینہ بھرا ہوا ہے اس سے اس کے علاوہ اور کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟ تو کہتا ہے کہ کاش جنگ بدر میں قتل ہونے والے میرے بزرگ موجود ہوتے اور یہ کہکر تو فرزند رسول (ص)  کے دندان مبارک پر چھڑی لگاتا ہے ؟ کبھی تیرے دل میں یہ خیال نہیں آتا ہے کہ تو ایک گناہ اور برے کام کا مرتکب ہوا ہے ؟ تونے آل رسول (ص) اور خاندان عبدالمطلب کا خون بہا کر دو خاندانوں کی دشمنی کو پھر زندہ کردیا ہے ،خون نہ ہو کہ تو بہت جلد خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوگا ، اس وقت یہ تمنا کرے گا کہ کاش تو اندھا ہوتا اور یہ دن نہ دیکھتا تو یہ کہتا ہے کہ اگر میرے بزرگ اس مجلس میں ہوتے تو خوشی سےاچھل پڑتے ، اے اللہ تو ہی ہمارا انتقام لے اور جن لوگوں نے ہم پرستم کیا ہے ان کےدلوں کو ہمارے کینہ سے خالی کردے ،خداکی قسم دو اپنے آپے سے باہر آ گیا ہے اور اپنے گوشت کو بڑھالیا ہے ، جس روز رسول (ص)خدا ،ان کے اہل بیت (ع) ، اور ان کے فرزند رحمت خدا کے سایہ میں آرام کرتے ہوں گے تو ذلت و رسوائی کےساتھ ان کے سامنے کھڑا ہوگا یہ دن وہروز ہے جس میں خدا اپنا وعدہ پورا کرے گا وہ مظلوم  و ستم دیدہ لوگ جو کہ اپنے خون کی چادر اوڑھے ایک گوشے میں محو خواب ہیں ، انہیں جمع کرے گا ، خدا خود فرماتا ہے : " راہ خدا میں مرجانے والوں کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کی نعمتوں سے بہرہ مند ہیں ، تیرے باپ معاویہ نے تجھے ناحق مسلمانوں پر مسلط کیا ہے  ، جس روز محمد (ص) داد خواہ ہوں گے اور فیصلہ کرنے والا خدا ہوگا ، اور عدالت الہیہ میں تیرے ہاتھ پاؤں گواہ ہوں گے اس روز معلوم ہوگا کہ تم میں سے کون زیادہ نیک بخت ہے ۔

یزید اے دشمن خدا ! میری نظروں میں تیری بھی قدر و قیمت نہیں ہے کہ میں تجھے سرزنش کروں یا تحقیر کروں ، لیکن کیا کروں میری آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا رہے ہیں دل سے آہیں نکل رہی ہیں ، شہادت حسین (ع) کے بعد لشکر شیطان ہمیں کوفہ سے ناہنجاروں کے دربار میں لایا تاکہ اہلبیت (ع) پیغمبر (ص) کی ہتک حرمت و عزت کرنے پر مسمانوں کے بیت المال سے ، جو کہ زحمت کش و ستم دیدہ لوگوں کی محنتوں کا صلہ ہے ، انعام حاصل کرے جب اس لشکر کے ہاتھ ہمارے خون سے رنگین ہوۓ اور دہان ہمارے گوشت کے ٹکڑوں سے بھر گۓ ہیں ، جب ان پاکیزہ جسموں کے آس پاس درندہ کتے دوڑ رہے ہیں ایسے موقع پر تجھے سرزنش کرنے سے کیا ہوتا ہے ؟ اگر تو یہ سمجھتا ہے کہ تونے ہمارے مردوں کو شھید اور ہمیں اسیر کرکے فائدہ حاصل کر لیا ہے تو عنقریب تجھے معلوم ہوجاۓ گا کہ جسے تو فائدہ سمجھتا ہے وہ نقصان کے سوا کچھ نہیں ہے ، اس روز تمہارے کۓ کے علاوہ تمارے پاس کچھ نہ ہوگا ، تو ابن زیاد سے مدد مانگے گا اور وہ تجھ سے ، تو اور تیرے پیروکار خدا کی میزان عدل کے سامنے کھڑے ہوں گے ، تجھے اس روز معلوم ہوگا کہ بہترین توشہ جو تیرے باپ معاویہ نے تیرے لۓ جمع کیا ہے وہ یہ ہے کہ تو نے رسول (ص) خدا کے بیٹوں کو قتل کردیا ، قسم خدا کی میں خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی اور اس کے علاوہ کسی سے شکایت نہیں کرتی ، جو چاہو تم کرو ، جس نیرنگی سے کام لینا چاہو لو ، اپنی ہردشمنی کا اظہار کرکے دیکھ لو ، قسم خدا کی جو ننگ کا دھبہ تیرے دامن پر لگ گیا ہے وہ ہرگز نہ چھوٹے گا ، ہر تعریف خدا کے لۓ ہے جس نے جوانان بہشت کے سرداروں کو کامیابی عطا کی ، جنت کو ان کے لۓ واجب قرار دیا ، خداوند عالم سے دعا ہے کہ ان کی عظمت و عزت میں اضافہ فرماۓ ان پر اپنی رحمت کے سائیہ کو مزید گستردہ کردے کہ تو قدرت رکھنے والا ہے ۔[27]

            شام والے رفتہ رفتہ عراق میں گزرجانے والے حادثہ کی حقیقت سے آگاہ ہوگۓ اور انہیں یہ معلوم ہوگیا کہ کربلا والے یزید کے حکم اور کوفہ کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوۓ ہیں رسول (ص) خدا کے نواسے حسین بن علی (ع) اور یہ خواتین بچے جنہیں قیدی بناکر دمشق لایا گیا ہے یہ پیغمبر اسلام (ص) کے اہلبیت (ع) یہ اس کاخاندان ہے جس کی جانشینی کے نام پر یزید ان پر دوسرے مسلمانوں پر حکومت کررہا ہے ۔[28]

            سوختہ جگر اور تقوی سے سرشار دل سے نکلے ہوے کلمات کا رد عمل ہوگا معلوم ہے ،پتھر کے دل والا بھی جب ایمان و تقوی کے مقابلہ میں آتا ہے تو وہ خود کو ناتوان اور مدمقابل کو طاقتور سمجھتا ہے ، اور چند لحظوں کے بعد ہی بوکھلاجاتاہ ے،قصریزید میں موت کا سناٹا چھاگیا ، یزید نے حاضرین کی پیشانیوں سے ناراضی اور نفرت کے آثار دیکھے کہنے لگا خدا ابن مرجانہ کو غارت کرے ، میں حسین (ع) کے قتل کو پسند نہیں کرتا تھا ، اس کے بعد اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ اسیروں کو اسی حالت میں رکھنا مصلحت کے خلاف ہے ، حکم دیا کہ  انہیں دوسری جگہ منتقل کردو ، قریش کی خواتین میں سے جو بھی ان سے ملنا چاہتی ہے مل سکتنی ہے ۔ دوپہر اور شام کے کھانے پر علی بن الحسین (ع) کو دعوت دینے لگا ، کیا واقعی اس کے دل میں پشیمانی کا ذرہ برابر اثر تھا ان خیموں میں زندگی کزارنے والوں کے بارے میں ایسا کوئی احتمال ہے ، جب تک ایسا احتمال پید ہوگا اس وقت تک دوسرا اطمینان اسے بر طرف کردے گا ، اس بات کا اطمینان کہ اگر یزید ایسا نہ کرتا تو ممکن تھاکہ کوفہ اور دمشق میں آشوب و انقلاب پھیل جاتا ، ہر چند اسے طاقت سے جلد ہی کچل  دیتا لیکن آج سے اور اس مجلس ایک طبقہ نے یہ محسوس کرلیاکہ جس کو حقیقت سمجھتے تھے وہ حقیقت نہیں ہے اور مسلمانوں کا حاکم وہ نہیں ہے جو ان پر حکومت کررہا ہے [29]

عظمت زینب سلام اللہ علیہا

             حضرت زینب (س) کی عظمت اور قوت قلب اس وقت اور اچھی طرح آشکار ہوجاتی ہے کہ جب یزید کی مجلس میں آپ کی روحانی حیثیت اور رخطبہ اپنا اثر قائم کرتا ہے ۔

            یزید کی مجلس کے ماحول میں خوف و ہراس طاری ہے اور یزید اپنے خیال خام میں بڑا طاقت والا اور فاتح ہے ، امور سلطنت کے ذمہ داران اس کے چاروں طرف بیٹھے ہیں ،اس کے دشمن قیدی بنے ہوۓ ہیں اور اس کے مخالفین کے رہبر امام حسین (ع) کا سر اقدس اس کے سامنے ہے ۔

            اسیروں میں کچھ خواتین اور بچے ہیں اور امام زین العابدین (ع) ہیں جو کہ بیمار ہیں ، یزید غرور و جاہ طلبی کے نشہ میں چور ہے ۔ شام اس کی حکومت کا مرکز ہے اور وہاں کے لوگ اس کے باپ معاویہ کے مکتب کے پلے ہوۓ ہیں ، لیکن جس زینب (س) نے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ اور مکہ معظمہ سے کربلا اور کربلاسے کوفہ اور کوفہ سے شام کے سفر کے دوران بڑی بڑی مصیبتیں اٹھائی ہیں اور سفر میں ذرہ برابر آرام میسر ہیں آیا ہے کسی ایک شخص یا جماعت کی حمایت کے بغیر قافلہ سالاری کو سنبھالے رہیں اور منزل بہ منزل ان کی حفاظت کرتی رہیں اور اب رسول (ص) خدا کی اولاد کی ناگفتہ بہ حالت ہے امام زین العابدین کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور گلے میں مار ڈالنے والا طوق ہے یزید سر حسین (ع) کی ہتک کرہا ہے اور زینب (س) سب کچھ دیکھ رہی ہیں ۔

            اس ماحول میں لب کشائی کے لۓ شیر کا کلیجہ اور جرئت درکار ہے ، زینب (س) کی رگوں میں علی (ع) و فاطمہ (س) کا خون دوڑ رہا ہے ۔ آپ اپنے زمانہ کے بڑے بت کے سامنے اس شجاعت و شہامت سے ایسے سخن ریز ہوتی ہیں اور اہلبیت (‏ع) کی فریاد مظلومیت پوری تاریخ میں پھیلادیتی ہیں اور خوابیدہ ضمیروں کو بیدار کردیتی ہیں ۔

کلام زینب (س) کے چند نکات

            جناب زینب (س) کی تقریر ایسی منطقی اور شعلہ ور تھی کہ جس کس مقابلہ میں کوئی شخص کھڑا نہیں رہ سکتا تھا ، زینب (س) کی تقریر کی قاطعیت و جامعیت نے یزید جیسی پلید شخصیت کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کردیا اور رسول (ص) اور آل رسول (ع) کی عظمت و کرامت کو یاد دلایا اور الہی اقدار کو اقدار کی ضد سے جدا کردیا ۔

            اگر چہ آپ (س) کا پورا خطبہ ہی نکاس معمور ہے لیکن ہم یہاں اس خطبہ کے چند نکات ہی ک ےبیان پر اکتفا کرتے ہیں ۔

            جناب زینب (س) کے خطبہ کے برجستہ ابعاد میں سے ایک پہلو یزید کے خاندان کے سیاہ کارنامے اور اس کی ناپاکی کے ریشے ہیں ، زینب (س) خاندان یزید کی پلیدیوں کو شمار کراتی ہیں اور کسی شخص میں ان کی تردید کی طاقت نہیں ہے ۔ اے یزید تو ہندہ کا بیٹا ہے اور ہندہ وہ عورت ہے کہ جس نے جنگ احد میں لشکر رسول (ص) کے سردار سید الشہداء حضرت حمزہ کا جگر اپنے دانتوں سے چباکر پھینک دیا تھا ،ایسے خاندان سے سانحہ کربلا کے علاوہ اورکوئی توقع نہیں رکھی جاسکتی ۔

            زینب (س) یزید کو ابن طلقاء کہکر مخاطب کوتی ہیں ، طلقاء ان لوگوں کو کہتے ہیں جو کہ رسول خدا سے دشمنی رکھتے تھے جنگ کرتے تھے لیکن فتح مکہ کے وقت رسول (ص) نے انہیں آزاد کودیا تھا اور فرمایا تھا : "اذ ھبوا انتم الطلقا "_30 جاؤ تم سب آزاد ہو یزید انہیں اشخاص کا بیٹا ہے جنھیں رسول نے آزاد کردیا تھا اور آج اس نے خاندان پیغمبر (ص) کو اسیر بنا رکھا ہے ، اس جملہ کے ذریعہ زینب (س) نے یزید کو یہ سمجھادیا کہ درحقیقت قیدی تو ہے ہماری اسیری ہماری ذلت پر دال نہیں ہے اور نہ تیری طاقت تیری عظمت و کامیابی پر دال ہے

            جناب زینب (س) کی اس تقریر سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زینب کو تاریخ اسلام پر کتنا عبور تھا ۔

حزب اللہ اور گروہ شیطان

            جناب زینب(س) اپنے سرفراز خاندان کے نام کو حزب اللہ اور یزید کے ناپاک خاندان کو گروہ شیطان کے نام سے یاد کرتی ہیں اور فرماتی ہیں : بڑے تعجب کی بات ہے کہ حزب اللہ ، گروہ شیطان اور آزاد شدہ لوگوں کے ہاتھوں مارا جاۓ ، ہمارا خون تمہارے ہاتھوں سے ٹپک رہا ہے اور تمہارے منھ سے ہمارا گوشت نکلا پڑرہا ہے ۔

پردہ کی اہمیت

            جناب زینب (س) کے کلام سے تمام با ایمان اور اہلبیت (ع) کا اتباع کرنے والوں کو جو پیغام دیا جاسکتا ہے وعفت و حجاب کا پیغام ہے زینب خاندان پیغمبر (ص) کی خواتین  بیٹیوں کو قیدی بناکر شہروں شہروں ، کوچہ و بازار میں سربرہنہ مجمع عام میں پھرانے پر تند و سخت لہجہ میں اعتراض کرتی ہیں اور اس حرکت کو عدل کے خلاف قرار دیتی ہیں ، یہ حساسیت مسلمان عورت کے حجاب و عفت کی اہمیت کی غماز ہے ، اس سے ہمیشہ دفاع کرنا چاہۓ ۔

‍‌©©©

پیشن گوئی

             زینب (س) نے اپنے خطبہ کے آخر میں اعتماد کے ساتھ فرمایا : اے یزید تو اپنے تمام مکر و حیلوں کو استعمال کرلے اور اپنی پوری طاقت سے کوشش کرلے لیکن قسم خدا کی تو ہماری یاد کو نہیں مٹا سکتا ہے اور وحی الہی کو نابود نہیں کرسکتا ہے _ _ _ ہر تعریف خدا ہی کے لۓ ہے کہ جس نے ہمارا آغاز سعادت و مغفرت سے اور اختتام شہادت و رحمت پر کیا اور ایسا ہی ہوا کہ جناب زینب (س) نے فرمایا تھا ۔

زینب (س) اور ایک دوسرا پیغام

            دربار یزید میں اسیروں کے درمیان امام حسین (ع) کی چھوٹی سی بچی کا معصوم چرہ چاند کی طرح چمک رہا تھا ، اگر چہ اس سفر میں اس پر بہت سی مصیبتیں پڑی تھیں اور اس نے بہت سارے رنج برداشت کۓ تھے ، لیکن غم کے پوتو میں چہرہ کی معصومیت و زیبائی نمایاں تھی ، یزید کے حاشیہ نشینوں میں سے ایک نے یزید سے کہا یہ لڑکی مجھے بخش دیجۓ ، بخی اپنی پھوپی زینب (س) سے لپٹ گئ اور کہا : پھوپھی جان یتیم ہوگئی ہوں کیا اب کنیز بنوں گی ؟! زینب نے اس شامی کو مخاطب کوکے کہا : تو جھوٹ بولتا ہے ، بہت کمینی حرکت کی ہے تو نے ، اس کا نہ تجھے حق ہے نہ یزید کو ، یزید زینب کا یہ کلام سن کر غضبناک ہوا اور کنہے لگا : مجھے یہ حق ہے ، اگر میں چاہوں تو ایسا کرسکتا ہوں ، زینب (س) نے جواب دیا ہرگز تو ایسا نہیں کرسکتا ہے کیونکہ خداوند عالم نے تجھے یہ حق نہیں دیا ہے مگر یہ تو ہمارے آئین سے باہر اور دوسرے دین میں داخل ہوجاۓ گا ، یزید نے کہا: تمہارے باپ اور بھائی دین سے خارج ہوگۓ ، زینب (س) نے فرمایا : اگر تو مسلمان ہونے کا دعویدار ہے تو میرے جد ، بابا اور میرے بھائی کے دین سے ھدایت پائی ہے ۔

            زینب (س) کی منطقی باتوں کا یزید کے پاس کوئی جواب نہ تھا اس نے ناتوانوں کا حربہ دشنام اختیار کیا اور کہا : اے دشمن خدا تو جھوٹ کہتی ہے! زینب (س) نے فرمایا: تو اس وقت امیر ہے اور دشنام دے رہا ہے اور اپنی طاقت پر ناز کررہا ہے آخر کار یزید شرمندہ ہوا اور خاموش ہوگیا_31

            زینب (س) نے اس یزید کا مقابلہ کیا جو کہ یہ سمجھتا تھا کہ جو چاہے گا کر کزرے گا ، اور اسے دوسروں کے سامنے پشیمان و رسوا کردیا ۔

کربلا منزل بہ منزل

عنوان کی جدت و دلکش تسلیم لیکن کوئی اور نہیں میرا اپنا دل کہتا کہ یہ درست بھی ہے یا نہیں؟ کربلا منزل بہ منزل یعنی کیا؟ کربلا رہ نور دان عشق و آگہی کی آماجگاہ ،کاروان اخلاق و شرافت کی منزل آخر۔کربلا سر نوشت مسجود ملائک کا پہلا و آخری ورق ،عہد و معبود ، نازو نیاز کا نقطہ ¿ اتصال ،زندگی و بندگی کی صدرنگ معنویت کا نگارخانہ ہے ۔ کربلا جادہ بھی ہے منزل بھی ،راہ بھی ہے راہبر بھی، داستان بھی عنوان بھی ۔یہاں ظرف و مظروف کا فرق مٹ جاگیا ہے نسبت و منسوب میں حد فاصل نہیں رہ گئی ہے ۔ کربلا کے معنی ہیں حسین علیہ السلام اور حسین علیہ السلام یعنی کربلا ۔ دنیا کے عجائب خانے میں بھی ایک نادر و منفرد تجربہ ہی ہے ۔ تو پھر کربلا منزل بہ منزل کا مقصد؟

لیکن مجھے یہاںدونوں میں خط جدائی کھینچنا ہے کیوں کہ موضوع کا تقاضہ ہے اگر چہ یہ ممکن ہے کہ وہ اسی طرح موسوم ہو جیسے خط نصف النہار جو دن کی تصنیف روزانہ ہی کیا کرتا ہے اس بات کو یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ صف امامت کے گوہر بے بہا اور شمشیر ولایت کے جوہر آبدار اور دو عالم کی آبرو حسین ابن علی علیہ السلام جو خیر النساءکے پارہ تن صاحب لا فتیٰ کے لخت جگر اور محبوب خدا کے پروردہ آغوش تھے جن کا مولد حرم رسول اور شہر منور تھا ، جن کی گہوارہ جنبانی روح الامین کرتے تھے ان کی منزل آخراور مرقد اطہر کی جلالت و شکوہ عالم کیا ہونا چاہئے اور اسے وہ رفعت و شان ملی بھی کہ نہیں۔

یہ تو ہم میں سے ہر ایک کو یاد ہے کہ امام عالی مقام نے اس خط ¿ ارض پر قدم رکھتے ہی فرمایاتھا: کہ یہ کرب اور بلا کی زمین ہے لیکن شائد ہم نے اس کا مفہوم و معنی سمجھنے میں کچھ زیادہ عجلت یا سہل انگاری سے کام لیا اور کربلا کو اندوہ و مصیبت کی جگہ مان کر اسے عاشورہ کے پر الم داستان و واقعات شہادت کا سر نامہ قرار دے دیا اور اس کا نام لے کر اپنی فغان و فریاد کے لئے شعار بنا لیا اور بس۔حالانکہ یہ امت کے ایک الوہی حکیم اور قرآن ناطق کا فقرہ تھا جس کی تہ داری ، معنویت ، گہرائی و وسعت کی تھاہ لگانا ممکن نہیں لیکن معمولی غور و فکر سے کھلتا ہے کہ امام علیہ السلام نے اس جملے میں نفسیات انسانی اور بشری ارتقا کی کنجی چھپا کے رکھ دی ہے اور بتایا ہے کہ کرب و غم ہی تو وہ متاع بے بہا ہے جس سے انسان اپنے وجود کی تکمیل کرکے اپنا مقصد حیات پورا کر سکتا ہے ۔ غم و الم جس کا آفاق میں نہ بدل ہے نہ ہمسر رنج و بلا کی آنچ میں تپ کر انسان کا تذکیہ نفس ہوتا ہے اور جوں جوں آزمائش و مصایب کی تپش بڑھتی ہے اس کا مادی پیکر پگھلنے لگتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ جوہر دو ما فوق البشر بن کر عالم لاہوت و مقام محمود کا مالک بن جاتا ہے۔

ہاں وہی کربلا غم والم کی زمین جہاں ہجری ١٦ میں ایک مختصر سا قافلہ اترا تھا جس میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اولاد بھی تھی اور اصحاب وتابعین بھی ، نو وارد بھی تھے اور قدیم حلقہ بگوش اہلبیت بھی، بوڑھے، بچے، مرد، عورت، آزاد غلام، جگری دوست اور جانی دشمن سبھی جمع تھے ۔ لیکن یہ تمام داخلی وخارجی اختلافات حدود کربلا کے باہر تک تھے مگر جوں ہی اس ارض مقدس سے ان کے پیر مس ہوئے یک لخت سارا افتراق ،وحدت کاملہ میں بدل گیا۔ اور سب کے سب ایک تن ایک جاں ہوگئے ۔شہادت سے کافی پہلے یہ قلب ماہیت ہوئی اور پھر اس کے بعد تو کہنا ہی کیا؟ تب سے آج تک وہ نورامامت کا بالہ بنے ہوئے ہیں یہ بہتر تن معنوی حیثیت سے ایک پیکر ایک آواز ،ایک لگن ،ایک ہی دھن کہ توحید کا پرچم سر نگوں نہ ہونے پائے اللہ کا نام اونچا رہے اس واقعہ کو سیگڑوں برس گزرگئے مگر کربلا اپنا رول آج بھی ادا کرنے پر کمر بستہ ہے اسی اثنا میں جب بھی توحید پر آنچ آئی تو ارض کربلا نے ہی تڑپ کر آواز ھل من ناصر ہم فرزندان توحید کے کان میں پھونکی اور توحید کا علم بلند کرنے کے لئے سب صف آرا ہو گئے اور آنے والے کل میں کربلا ہی سب کے لئے مرکز امید ہے ۔

یہ تو تھی کربلا کی پہلی منزل ،آخری منزل کا سراغ اس اہم نکتہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب اس کے قدیم وجدید معنی میں بعد مشرقین پیدا ہوچکا ہے اور شہادت و مظلومیت اور خون و آنسو کی یہ وادی ایمن رب بشارت ،فتح و نصرت کامیابی و کامرانی سے عبارت ہے۔
کربلا اب بے خونی ،جگر داری ،حریت ،ضمیر ،آزادی فکر جہد مسلسل کے گلہائے گوناگوں سے رنگین لالہ زار کا نام ہے جس پر محبوب خدا کی خانہ بربادی ،خاتون جنت کی آہ نیم شبی ۔ پیاسے بچوں کی صدائے العطش ،ابن زہرا کا خون میں ڈوبا ہوا تن زار اور بہتر لاشے ، زینب و ام کلثوم کی اسیری سید سجاد کی بے چارگی ابر رحمت کی طرح سایہ فگن ہے دل گداز ہوش ربا رقت انگیز اور عقیدہ جہاد کی طویل دعوت دیتا اور شجر ایمان کی آبیاری کرتا خزاں کے سامنے سپر بنا ہوا ہے ظرف و مظروف اور نسبت و منسوب کے لازمی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے تاریخی واقعات کی روشنی میں بھی کربلا کی بلندی آسمان سے بات کرتی نظر آتی ہے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں صرف ہمارے امام زمانہ حضرت حجہ ابن الحسن عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی بخشی ہوئی زیارت وارثہ ہی سے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا کی عظمت مستقیم ہوجاتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ روز ازل ہی سے لوح محفوظ میں ذبح عظیم کا نام شط فرات سے جڑا ہوا تھا امام حسین علیہ السلام نے تمام انبیا کرام کی وراثت پائی تو ان کا مقتل بھی تقدس و طہارت ،عروج و نورانیت کے تمام اعلیٰ معیاروں کو پار کر گیا ۔ یہاں تک کہ مٹی جس کا کھانا حرام ہے ۔ کربلا کی نسبت پاتے ہی خاک شفا بن گئی ۔ امام حسین علیہ السلام سردار جوانان جنت ہیں اور کربلا امام علیہ السلام کا پایہ گاہ ہے جو فرق مملکت کے دوسرے علاقوں اور دارالسلطنت میں ہوتا ہے اتنا تو جنت سے کربلا کو کم ماننا ہی پڑے گا اگر چہ جنت ہر بلند مقام سے بلند ہے کہ وہ متقین ،صالحین ،شہداءو صدقین انبیا و اولیا و اوصیا سب کی قرار گاہ اور منتہا ئے آرزو ہے لیکن کربلا اس سے بہتر ہے شاید اسی لئے اس سرزمین پر جناب آدم،جناب نوح ،جناب ابراہیم ،جناب موسیٰ ،جناب عیسیٰ علیہم السلام اور سبھی بزرگ انبیا تشریف لائے جس کی بہت سی توجیہ ممکن ہے لیکن بہر حال امام حسین علیہ السلام ان سب کے وارث تھے اس لئے بھی کہ ان کو یہاں آناتھا آئے اور روایتوں کے مطابق ہر ایک نے کچھ نہ کچھ ایذا پائی امام حسین علیہ السلام پر گریہ کیا اور ان کے قاتلوں پر لعنت اور جب خاک کربلا وادی شہادت اور حسین کی آخری آرام گاہ کی زیارت کرکے آگے بڑھے تو ان کی بہت سی مشکلات حل ہوگئیں ۔جناب آدم علیہ السلام اور جناب حوا مل گئے۔کشتی نوح علیہ السلام بھنور سے نکل کر کوہ جودی پر ٹھہر گئی اور کتابوں میں تلاش کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن دل گواہی دیتا ہے کہ شہادت امام حسین علیہ السلام سے بہت پہلے ملائکہ کو اس زمین کے طواف پر مامور کر دیا گیا ہوگا۔

آج سید الشہداءامام حسین علیہ السلام کا روضہ ایک آراستہ و پیراستہ وسیع وشاندار عمارت ہے سورج کی کرنوں سے اس کے طلائی قبہ و مینار اسی طرح چمکتے دمکتے ہیں جیسے صحرا میں ریت کے ذرے۔ نیچے سرداب ہے اور پختہ وبلند احاطہ ہے جس میں باب قبلہ باب قاضی الحاجات ، باب صحن کوچک ، باب حر ، باب سلطانیہ ، باب زینبیہ ، نام کے بلندو بالا دروازے نصب ہیں وسط حرم میں روضہ مقدس ہے روضہ انوار کے دروازے نقری ¿اور بہت دیدہ زیب ہیں تمام عمارت پر چینی کی گل کاری ہے اور قرآنی آیات جابجا بہترین خط میں لکھی ہوئی ہیں اندرونی حصوں میں کاشی کاری اور آئینہ بندی کا اعلا نمونہ ہے ۔ علی الخصوص زیر قبہ جہاں مزار مبارک ہے اس کی آرائش دیکھنے ہی سے تعلق رکھتی ہے ۔ یہ وہی مقام ہے جس کے لئے بانی اسلام نے فرمایا تھا : ”دعا تحت قبہ مستحب ہے

یہاں رات بھر بجلی کے قمقمے جگ مگاتے رہتے ہیں اور روضہ بقعہ ¿ نور بنا رہتا ہے پہلے جگہ جگہ برقی پنکھے لگے ہوئے تھے اب ان کو ہٹا کر پوری عمارت کو ایرکنڈیشن کر دیا گیا ہے قیمتی جواہرات اور نادر اشیاءجو نذر میں چڑھائی گئی ہیں ان کو موقع بہ موقع آویزاں کیا گیا ہے جس سے رونق دو بالا ہوگئی ہے ضریح مبارک چاندی کی ہے اس کے ارد گرد سنگ مرمر کا فرش ہے جس پر قیمتی و دبیز قالین بچھے ہوئے ہیں جس کے بننے میں فن کا کمال رکھا گیا ہے زائرین کا سخت ہجوم یہاں شب و روز رہتا ہے سب ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور شانے سے شانہ چھلتا ہے۔

لیکن یہ سب کچھ بہت دنوں بعد ہوا ابتدا میں تو بنی اسد کی بنائی ہوئی چند کچی قبریں ہی تھیں اور پہلے زائر صحابی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب جابر ابن عبدا للہ انصاری اور ان کے بعض ساتھی و غلام تھے ۔ شہادت امام حسین علیہ السلام کے کئی سال بعد امیر مختار نے ان قبروں کو پختہ کرایا اور سائبان ڈلوائے مگر بنی مروان نے زیارت پر پابندی عائد کر دی ۔ عباسیوں کے زمانہ میں پھر روضہ کی آبادی شروع ہوگئی اور زائرین کربلا جانے لگے یہاں تک کہ متوکل ملعون نے تمام روضوں کو تباہ و برباد اور مسمار کر دیا اور زیارت امام حسین علیہ لالسلام کو لائق گردن زنی جرم قرار دے دیا اس کے قتل کے بعد گو کہ یہ بات نہیں رہی مگر کچھ ایسی شرطیں لگادی گئیں کہ اسے عوام نہیں پورا کر سکتے تھے اور سالہا سال مجبوری اور بے چارگی کا یہ دور چلتارہا ۔

اس مزار مقدس کا موجودہ عظیم الشان ہیکل آل بویہ کی عقیدت کا نتیجہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ان ہی کے زمانے سے کربلا کی رونق و مستقل آمدنی بڑھنے لگی اور چوتھی صدی ہجری سے لے کر ابھی چند سال قبل تک اس میں اضافہ و توسیع ہی ہوتی رہی ۔آٹھویں صدی میں خدا بندہ شاہ ایران نے پھر دسویں صدی میں شاہ اسماعیل صفوی اور اس کے بعد مختلف سلاطین ایران و ہندوستان و ترک کی عالی ہمتی اور خلوص و محبت کے زیر اثر کربلا، کاظمین، سامرہ، روضہ حضرت عباس علیہ السلام و حضرت حر علیہ السلام و دیگر شہدا کے روضے تعمیر ہوئے جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ خصوصیت کا حامل ہے ۔
دکن کے بہمنی حکمرانوں اور اودھ کے آخری تاجدروں نے بھی کربلا ئے مقدسہ اور اس کے روضہ ¿ ہائے متبرکہ کی تعمیر و تزئین میں نمایاں حصہ لیا ۔ اس کے ساتھ ہی سرائے ،مساجد ،نہر اور حمام بھی ان لوگوں نے تعمیر کرائے۔

امام حسین علیہ السلام کے مزار مبارک کے میناروں اور قبہ کو شاہ عباس اعظم صفوی نے طلائی زینت سے مزین کرایا ہے ایران کا یہ نامور بادشاہ اکبر کا ہمعصر تھا اس کی متابعت میں نادر شاہ درانی نے بارہویں صدی ہجری میں دوسرے روضوں خصوصا نجف و کاظمین کا مطلا کرایا لیکن تمام روضوں کی مرمت آئینہ کاری کا شی کا کام قاچار یوں کے دور میں ہوا ۔اور ترک حکمرانوں نے کربلا میں سڑک کی تعمیر ،روشنی ،پولیس ،شفاخانہ اور دیگر ضرورتوں کو پورا کیا اور متولیان و خدام کا نظارہ بنایا اور اس طرح کربلائے معلا ایک شہر مقدس کی شکل اختیار کر گیا جہاں کی آبادی بڑھتے بڑھتے لاکھوں کی تعداد ہوگئی۔
کربلا منزل بہ منزل “ کا عنوان ختم ہونے والا نہیں اگر چہ کئی منزلیں کربلا پر گزر چکی ہیں لیکن ابھی نہ جانے کتنی باقی ہیں ۔زمانہ نے پھر کروٹ بدلی ہے پچھلے سو سال سے عراق کو بعثی کافروں نے دبوچ لیاتھا ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا خون ناحق بہا یا جا رہا تھا گردنیں کٹ رہی تھیں قید خانے آباد ہو رہے تھے روضے ویران ہر طرف شور کہرام برپا تھا ۔بعثی کافر ظالم کی حکومت ختم ہوگئی لیکن ظلم و بربریت کا دور ختم نہیں ہوا کربلا کی زمین پھر تڑپ کر صدائے ” ھل من ناصر “ بلند کر رہی ہے لوگ دیوانہ وار منزل شہادت کی طرف منھ کئے بھاگے چلے جا رہے ہیں لیکن شاید ابھی صبح عاشور کا طلوع ہے اور عصر کے بعد ہی کربلا کی آئندہ کی سرنوشت کا تعین ہو سکے گا ۔ زندہ باد کربلا ۔پائندہ باد شہادت و عزیمت دعوت و جہاد کی سرزمین۔