چشم انتظار یار

چشم انتظار یار

Install Times new Roman Font on ur Computer
چشم انتظار یار

چشم انتظار یار

Install Times new Roman Font on ur Computer

السلام علیک یا جواد الائمه (ع)

ولادت با سعادت نهمین ستاره درخشان آسمان اهلبیت

حضرت امام محمد تقی (جواد الائمه) علیه السلام

 بر تمام مسلمانان و شیعیان جهان مبارک

سالروز ولادت امام جواد (ع)

تمام مسلمانان اور شیعیان جهان کو مبارک هو

 

مدیریت وبلاگ

کربلا منزل بہ منزل

عنوان کی جدت و دلکش تسلیم لیکن کوئی اور نہیں میرا اپنا دل کہتا کہ یہ درست بھی ہے یا نہیں؟ کربلا منزل بہ منزل یعنی کیا؟ کربلا رہ نور دان عشق و آگہی کی آماجگاہ ،کاروان اخلاق و شرافت کی منزل آخر۔کربلا سر نوشت مسجود ملائک کا پہلا و آخری ورق ،عہد و معبود ، نازو نیاز کا نقطہ ¿ اتصال ،زندگی و بندگی کی صدرنگ معنویت کا نگارخانہ ہے ۔ کربلا جادہ بھی ہے منزل بھی ،راہ بھی ہے راہبر بھی، داستان بھی عنوان بھی ۔یہاں ظرف و مظروف کا فرق مٹ جاگیا ہے نسبت و منسوب میں حد فاصل نہیں رہ گئی ہے ۔ کربلا کے معنی ہیں حسین علیہ السلام اور حسین علیہ السلام یعنی کربلا ۔ دنیا کے عجائب خانے میں بھی ایک نادر و منفرد تجربہ ہی ہے ۔ تو پھر کربلا منزل بہ منزل کا مقصد؟

لیکن مجھے یہاںدونوں میں خط جدائی کھینچنا ہے کیوں کہ موضوع کا تقاضہ ہے اگر چہ یہ ممکن ہے کہ وہ اسی طرح موسوم ہو جیسے خط نصف النہار جو دن کی تصنیف روزانہ ہی کیا کرتا ہے اس بات کو یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ صف امامت کے گوہر بے بہا اور شمشیر ولایت کے جوہر آبدار اور دو عالم کی آبرو حسین ابن علی علیہ السلام جو خیر النساءکے پارہ تن صاحب لا فتیٰ کے لخت جگر اور محبوب خدا کے پروردہ آغوش تھے جن کا مولد حرم رسول اور شہر منور تھا ، جن کی گہوارہ جنبانی روح الامین کرتے تھے ان کی منزل آخراور مرقد اطہر کی جلالت و شکوہ عالم کیا ہونا چاہئے اور اسے وہ رفعت و شان ملی بھی کہ نہیں۔

یہ تو ہم میں سے ہر ایک کو یاد ہے کہ امام عالی مقام نے اس خط ¿ ارض پر قدم رکھتے ہی فرمایاتھا: کہ یہ کرب اور بلا کی زمین ہے لیکن شائد ہم نے اس کا مفہوم و معنی سمجھنے میں کچھ زیادہ عجلت یا سہل انگاری سے کام لیا اور کربلا کو اندوہ و مصیبت کی جگہ مان کر اسے عاشورہ کے پر الم داستان و واقعات شہادت کا سر نامہ قرار دے دیا اور اس کا نام لے کر اپنی فغان و فریاد کے لئے شعار بنا لیا اور بس۔حالانکہ یہ امت کے ایک الوہی حکیم اور قرآن ناطق کا فقرہ تھا جس کی تہ داری ، معنویت ، گہرائی و وسعت کی تھاہ لگانا ممکن نہیں لیکن معمولی غور و فکر سے کھلتا ہے کہ امام علیہ السلام نے اس جملے میں نفسیات انسانی اور بشری ارتقا کی کنجی چھپا کے رکھ دی ہے اور بتایا ہے کہ کرب و غم ہی تو وہ متاع بے بہا ہے جس سے انسان اپنے وجود کی تکمیل کرکے اپنا مقصد حیات پورا کر سکتا ہے ۔ غم و الم جس کا آفاق میں نہ بدل ہے نہ ہمسر رنج و بلا کی آنچ میں تپ کر انسان کا تذکیہ نفس ہوتا ہے اور جوں جوں آزمائش و مصایب کی تپش بڑھتی ہے اس کا مادی پیکر پگھلنے لگتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ جوہر دو ما فوق البشر بن کر عالم لاہوت و مقام محمود کا مالک بن جاتا ہے۔

ہاں وہی کربلا غم والم کی زمین جہاں ہجری ١٦ میں ایک مختصر سا قافلہ اترا تھا جس میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اولاد بھی تھی اور اصحاب وتابعین بھی ، نو وارد بھی تھے اور قدیم حلقہ بگوش اہلبیت بھی، بوڑھے، بچے، مرد، عورت، آزاد غلام، جگری دوست اور جانی دشمن سبھی جمع تھے ۔ لیکن یہ تمام داخلی وخارجی اختلافات حدود کربلا کے باہر تک تھے مگر جوں ہی اس ارض مقدس سے ان کے پیر مس ہوئے یک لخت سارا افتراق ،وحدت کاملہ میں بدل گیا۔ اور سب کے سب ایک تن ایک جاں ہوگئے ۔شہادت سے کافی پہلے یہ قلب ماہیت ہوئی اور پھر اس کے بعد تو کہنا ہی کیا؟ تب سے آج تک وہ نورامامت کا بالہ بنے ہوئے ہیں یہ بہتر تن معنوی حیثیت سے ایک پیکر ایک آواز ،ایک لگن ،ایک ہی دھن کہ توحید کا پرچم سر نگوں نہ ہونے پائے اللہ کا نام اونچا رہے اس واقعہ کو سیگڑوں برس گزرگئے مگر کربلا اپنا رول آج بھی ادا کرنے پر کمر بستہ ہے اسی اثنا میں جب بھی توحید پر آنچ آئی تو ارض کربلا نے ہی تڑپ کر آواز ھل من ناصر ہم فرزندان توحید کے کان میں پھونکی اور توحید کا علم بلند کرنے کے لئے سب صف آرا ہو گئے اور آنے والے کل میں کربلا ہی سب کے لئے مرکز امید ہے ۔

یہ تو تھی کربلا کی پہلی منزل ،آخری منزل کا سراغ اس اہم نکتہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب اس کے قدیم وجدید معنی میں بعد مشرقین پیدا ہوچکا ہے اور شہادت و مظلومیت اور خون و آنسو کی یہ وادی ایمن رب بشارت ،فتح و نصرت کامیابی و کامرانی سے عبارت ہے۔
کربلا اب بے خونی ،جگر داری ،حریت ،ضمیر ،آزادی فکر جہد مسلسل کے گلہائے گوناگوں سے رنگین لالہ زار کا نام ہے جس پر محبوب خدا کی خانہ بربادی ،خاتون جنت کی آہ نیم شبی ۔ پیاسے بچوں کی صدائے العطش ،ابن زہرا کا خون میں ڈوبا ہوا تن زار اور بہتر لاشے ، زینب و ام کلثوم کی اسیری سید سجاد کی بے چارگی ابر رحمت کی طرح سایہ فگن ہے دل گداز ہوش ربا رقت انگیز اور عقیدہ جہاد کی طویل دعوت دیتا اور شجر ایمان کی آبیاری کرتا خزاں کے سامنے سپر بنا ہوا ہے ظرف و مظروف اور نسبت و منسوب کے لازمی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے تاریخی واقعات کی روشنی میں بھی کربلا کی بلندی آسمان سے بات کرتی نظر آتی ہے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں صرف ہمارے امام زمانہ حضرت حجہ ابن الحسن عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی بخشی ہوئی زیارت وارثہ ہی سے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا کی عظمت مستقیم ہوجاتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ روز ازل ہی سے لوح محفوظ میں ذبح عظیم کا نام شط فرات سے جڑا ہوا تھا امام حسین علیہ السلام نے تمام انبیا کرام کی وراثت پائی تو ان کا مقتل بھی تقدس و طہارت ،عروج و نورانیت کے تمام اعلیٰ معیاروں کو پار کر گیا ۔ یہاں تک کہ مٹی جس کا کھانا حرام ہے ۔ کربلا کی نسبت پاتے ہی خاک شفا بن گئی ۔ امام حسین علیہ السلام سردار جوانان جنت ہیں اور کربلا امام علیہ السلام کا پایہ گاہ ہے جو فرق مملکت کے دوسرے علاقوں اور دارالسلطنت میں ہوتا ہے اتنا تو جنت سے کربلا کو کم ماننا ہی پڑے گا اگر چہ جنت ہر بلند مقام سے بلند ہے کہ وہ متقین ،صالحین ،شہداءو صدقین انبیا و اولیا و اوصیا سب کی قرار گاہ اور منتہا ئے آرزو ہے لیکن کربلا اس سے بہتر ہے شاید اسی لئے اس سرزمین پر جناب آدم،جناب نوح ،جناب ابراہیم ،جناب موسیٰ ،جناب عیسیٰ علیہم السلام اور سبھی بزرگ انبیا تشریف لائے جس کی بہت سی توجیہ ممکن ہے لیکن بہر حال امام حسین علیہ السلام ان سب کے وارث تھے اس لئے بھی کہ ان کو یہاں آناتھا آئے اور روایتوں کے مطابق ہر ایک نے کچھ نہ کچھ ایذا پائی امام حسین علیہ السلام پر گریہ کیا اور ان کے قاتلوں پر لعنت اور جب خاک کربلا وادی شہادت اور حسین کی آخری آرام گاہ کی زیارت کرکے آگے بڑھے تو ان کی بہت سی مشکلات حل ہوگئیں ۔جناب آدم علیہ السلام اور جناب حوا مل گئے۔کشتی نوح علیہ السلام بھنور سے نکل کر کوہ جودی پر ٹھہر گئی اور کتابوں میں تلاش کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن دل گواہی دیتا ہے کہ شہادت امام حسین علیہ السلام سے بہت پہلے ملائکہ کو اس زمین کے طواف پر مامور کر دیا گیا ہوگا۔

آج سید الشہداءامام حسین علیہ السلام کا روضہ ایک آراستہ و پیراستہ وسیع وشاندار عمارت ہے سورج کی کرنوں سے اس کے طلائی قبہ و مینار اسی طرح چمکتے دمکتے ہیں جیسے صحرا میں ریت کے ذرے۔ نیچے سرداب ہے اور پختہ وبلند احاطہ ہے جس میں باب قبلہ باب قاضی الحاجات ، باب صحن کوچک ، باب حر ، باب سلطانیہ ، باب زینبیہ ، نام کے بلندو بالا دروازے نصب ہیں وسط حرم میں روضہ مقدس ہے روضہ انوار کے دروازے نقری ¿اور بہت دیدہ زیب ہیں تمام عمارت پر چینی کی گل کاری ہے اور قرآنی آیات جابجا بہترین خط میں لکھی ہوئی ہیں اندرونی حصوں میں کاشی کاری اور آئینہ بندی کا اعلا نمونہ ہے ۔ علی الخصوص زیر قبہ جہاں مزار مبارک ہے اس کی آرائش دیکھنے ہی سے تعلق رکھتی ہے ۔ یہ وہی مقام ہے جس کے لئے بانی اسلام نے فرمایا تھا : ”دعا تحت قبہ مستحب ہے

یہاں رات بھر بجلی کے قمقمے جگ مگاتے رہتے ہیں اور روضہ بقعہ ¿ نور بنا رہتا ہے پہلے جگہ جگہ برقی پنکھے لگے ہوئے تھے اب ان کو ہٹا کر پوری عمارت کو ایرکنڈیشن کر دیا گیا ہے قیمتی جواہرات اور نادر اشیاءجو نذر میں چڑھائی گئی ہیں ان کو موقع بہ موقع آویزاں کیا گیا ہے جس سے رونق دو بالا ہوگئی ہے ضریح مبارک چاندی کی ہے اس کے ارد گرد سنگ مرمر کا فرش ہے جس پر قیمتی و دبیز قالین بچھے ہوئے ہیں جس کے بننے میں فن کا کمال رکھا گیا ہے زائرین کا سخت ہجوم یہاں شب و روز رہتا ہے سب ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور شانے سے شانہ چھلتا ہے۔

لیکن یہ سب کچھ بہت دنوں بعد ہوا ابتدا میں تو بنی اسد کی بنائی ہوئی چند کچی قبریں ہی تھیں اور پہلے زائر صحابی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب جابر ابن عبدا للہ انصاری اور ان کے بعض ساتھی و غلام تھے ۔ شہادت امام حسین علیہ السلام کے کئی سال بعد امیر مختار نے ان قبروں کو پختہ کرایا اور سائبان ڈلوائے مگر بنی مروان نے زیارت پر پابندی عائد کر دی ۔ عباسیوں کے زمانہ میں پھر روضہ کی آبادی شروع ہوگئی اور زائرین کربلا جانے لگے یہاں تک کہ متوکل ملعون نے تمام روضوں کو تباہ و برباد اور مسمار کر دیا اور زیارت امام حسین علیہ لالسلام کو لائق گردن زنی جرم قرار دے دیا اس کے قتل کے بعد گو کہ یہ بات نہیں رہی مگر کچھ ایسی شرطیں لگادی گئیں کہ اسے عوام نہیں پورا کر سکتے تھے اور سالہا سال مجبوری اور بے چارگی کا یہ دور چلتارہا ۔

اس مزار مقدس کا موجودہ عظیم الشان ہیکل آل بویہ کی عقیدت کا نتیجہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ان ہی کے زمانے سے کربلا کی رونق و مستقل آمدنی بڑھنے لگی اور چوتھی صدی ہجری سے لے کر ابھی چند سال قبل تک اس میں اضافہ و توسیع ہی ہوتی رہی ۔آٹھویں صدی میں خدا بندہ شاہ ایران نے پھر دسویں صدی میں شاہ اسماعیل صفوی اور اس کے بعد مختلف سلاطین ایران و ہندوستان و ترک کی عالی ہمتی اور خلوص و محبت کے زیر اثر کربلا، کاظمین، سامرہ، روضہ حضرت عباس علیہ السلام و حضرت حر علیہ السلام و دیگر شہدا کے روضے تعمیر ہوئے جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ خصوصیت کا حامل ہے ۔
دکن کے بہمنی حکمرانوں اور اودھ کے آخری تاجدروں نے بھی کربلا ئے مقدسہ اور اس کے روضہ ¿ ہائے متبرکہ کی تعمیر و تزئین میں نمایاں حصہ لیا ۔ اس کے ساتھ ہی سرائے ،مساجد ،نہر اور حمام بھی ان لوگوں نے تعمیر کرائے۔

امام حسین علیہ السلام کے مزار مبارک کے میناروں اور قبہ کو شاہ عباس اعظم صفوی نے طلائی زینت سے مزین کرایا ہے ایران کا یہ نامور بادشاہ اکبر کا ہمعصر تھا اس کی متابعت میں نادر شاہ درانی نے بارہویں صدی ہجری میں دوسرے روضوں خصوصا نجف و کاظمین کا مطلا کرایا لیکن تمام روضوں کی مرمت آئینہ کاری کا شی کا کام قاچار یوں کے دور میں ہوا ۔اور ترک حکمرانوں نے کربلا میں سڑک کی تعمیر ،روشنی ،پولیس ،شفاخانہ اور دیگر ضرورتوں کو پورا کیا اور متولیان و خدام کا نظارہ بنایا اور اس طرح کربلائے معلا ایک شہر مقدس کی شکل اختیار کر گیا جہاں کی آبادی بڑھتے بڑھتے لاکھوں کی تعداد ہوگئی۔
کربلا منزل بہ منزل “ کا عنوان ختم ہونے والا نہیں اگر چہ کئی منزلیں کربلا پر گزر چکی ہیں لیکن ابھی نہ جانے کتنی باقی ہیں ۔زمانہ نے پھر کروٹ بدلی ہے پچھلے سو سال سے عراق کو بعثی کافروں نے دبوچ لیاتھا ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا خون ناحق بہا یا جا رہا تھا گردنیں کٹ رہی تھیں قید خانے آباد ہو رہے تھے روضے ویران ہر طرف شور کہرام برپا تھا ۔بعثی کافر ظالم کی حکومت ختم ہوگئی لیکن ظلم و بربریت کا دور ختم نہیں ہوا کربلا کی زمین پھر تڑپ کر صدائے ” ھل من ناصر “ بلند کر رہی ہے لوگ دیوانہ وار منزل شہادت کی طرف منھ کئے بھاگے چلے جا رہے ہیں لیکن شاید ابھی صبح عاشور کا طلوع ہے اور عصر کے بعد ہی کربلا کی آئندہ کی سرنوشت کا تعین ہو سکے گا ۔ زندہ باد کربلا ۔پائندہ باد شہادت و عزیمت دعوت و جہاد کی سرزمین۔

غلو کی روایات سب جعلی ہیں

 

۱۲۵۹۔ ابراہیم بن ابی محمود: میں نے امام رضا (ع) سے عرض کیا کہ فرزند رسول (ص) ہمارے پاس امیراالمومنین (ع) کے فضائل اور آپ کے فضائل میں بہت سے روایات ہیں جنہیں مخالفین نے بیان کیا ہے اور آپ حضرات نے نہیں بیان کیا ہے کیا ہم ان پر اعتماد کرلیں؟

فرمایا ابن ابی محمود! مجھے میرے پدر بزرگوار نے اپنے والد اور اپنے جد کے حوالہ سے بتایا ہے کہ رسول اکرم (ص)  کا ارشاد ہے کہ جس نے کسی کی بات پر اعتماد کیا گویا اس کا بندہ ہوگیا۔ اب اگر متکلم اللہ کی طرف سے بول رہا ہے تو یہ اللہ کا بندہ ہوگا اور اگر ابلیس کی بات کہہ رہا ہے تو یہ ابلیس کا بندہ ہوگا۔

اس کے بعد فرمایا : ابن ابی محمود! ہمارے مخالفین نے ہمارے فضائل میں بہت روایات وضع کی ہیں اور انہیں تین قسموں پر تقسیم کیا ہے ایک حصہ غلو کا ہے۔ دوسرے میں ہمارے امر کی توہین اور تیسرے میں ہمارے دشمنوں کی برائیوں کی صراحت ہے۔

لوگ جب غلو کی روایت سنتے ہیں تو ہمارے شیعوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہماری ربوبیت کے قائل ہیں اور جب تقصیر کی روایات سنتے ہیں تو ہمارے بارے میں یہی عقیدہ قائم کرلیتے ہیں اور جب ہمارے دشمنوں کی نام بنام برائی سنتے ہیں تو ہمیں نام بنام گالیاں دیتے ہیں جبکہ پروردگار نے خود فرمایا ہے کہ غیر خدا کی عبادت کرنے والوں کے معبودوں کو برا نہ کہو ورنہ وہ عداوت میں بلا کسی علم کے خدا کو بھی برا کہیں گے۔

ابن ابی محمود! جب لوگ داہنے بائیں جارہے ہیں تو جوہمارے راستہ پر رہے گا ہم اس کے ساتھ رہیں گے اور جو ہم سے الگ ہوجائے گا ہم اس سے الگ ہوجائیں گے۔ کم سے کم وہ بات جس سے انسان ایمان سے خارج ہوجاتا ہے یہ ہے کہ ذرہ کو گٹھلی کہہ دے اور اسی کو دین بنالے اور اس کے مخالف سے برائت کا اعلان کردے۔

ابن ابی محمود! جو کچھ میں نے کہا ہے اسے یاد رکھنا کہ اس میں میں نے دنیا وآخرت کا سارا خیر جمع کردیا ہے۔ (عیون اخبار الرضا (ع) ۱ ص ۳۰۴ / ۶۳ ، بشارۃ المصطفی ص ۲۲۱)

 

جن افراد کو اہلبیت (ع) میں شامل کیا گیا ہے

۱۔ سعد الخیر

۱۲۸۶۔ ابوحمزہ: سعد بن عبدالملک جو عبدالعزیز بن مروان کی اولاد میں تھے اور امام باقر(ع) انہیں سعد الخیر کے نام سے یاد کرتے تھے ۔ ایک دن امام باقر(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عورتوں کی طرح گریہ کرنا شروع کردیا۔ حضرت نے فرمایا کہ سعد! اس رونے کا سبب کیا ہے؟ عرض کی کس طرح نہ رؤں جبکہ میرا شمار قرآن مجید میں شجرہ ملعونہ میں کیا گیا ہے ۔

فرمایا کہ تم اس میں سے نہیں ہو ۔ تم اموی ہو لیکن ہم اہلبیت میں ہو ۔

کیا تم نے قرآن مجید میں جناب ابراہیم (ع) کا یہ قول نہیں سنا ہے ۔

“جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھے سے ہوگا“۔(اختصاص ص ۸۵)

۲ ابوذر

۱۲۸۳۔ رسول اکرم (ص): ابوذر ! تم ہم اہلبیت سے ہو ۔ (امالی طوسی ۵۲۵ / ۱۱۶۲ ، مکارم اخلاق ۲ ص ۳۶۳ / ۲۶۶۱ ، تنبیہ الخواطر ۲ ص ۵۱ روایت ابوذر)

۳۔ابوعبیدہ

۱۲۸۴۔ ابوالحسن : ابوعبیدہ کی زوجہ ان کے انتقال کے بعد امام صادق (ع)کی خدمت میں آئی اور کہا کہ میں اس لئے رو رہی ہوں کہ انہوں نے غربت میں انتقال کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ غریب نہیں تھے۔ وہ ہم اہلبیت میں سے ہیں۔ (مستطرفات السرائر ۴۰/ ۴)

۴۔ راہب بلیخ

۱۲۸۵۔ حبہ عرنی: جب حضرت علی(ع) بلیخ نامی جگہ پر فرات کے کنارہ اترے تو ایک راہب صومعہ سے نکل کر آیا اور اس نے کہا کہ ہمارے پاس ایک کتاب ہےجو آباو اجداد سے وراثت میں ملی ہے اور اسے اصحاب عیسی بن مریم نے لکھا ہے۔میں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ فرمایا وہ کہاں ہے لاؤ۔ اس نے کہا اس کا مفہوم یہ ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اس خدا کا فیصلہ ہے جو اس نے کتاب میں لکھ دیا ہے کہ وہ مکہ والوں میں ایک رسول بھیجنے والا ہے جو انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے گا۔ اللہ کا راستہ دکھائے گا اور نہ بداخلاق ہوگا اور نہ تند مزاج اور نہ بازاروں میں چکر لگانے والا ہوگا۔ وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دے گا بلکہ عفو و درگذر سے کام لے گا۔ اس کی امت میں وہ حمد کرنے والے ہوں گے جو ہر بلندی پر شکر پروردگار کریں گے اور ہر صعود و نزول پر حمد خدا کریں گے ۔ ان کی زبانیں تہلیل و تکبیر کے لئے ہموار ہوں گی۔ خدا اسے تمام دشمنوں کے مقابلہ میں امداد دے گا اور جب اس کا انتقال ہوگا تو امت میں اختلاف پیدا ہوگا۔ اس کے بعد پھر اجتماع ہوگا اور ایک مدت تک باقی رہے گا۔ اس کے بعد ایک شخص کنارہ فرات سے گذرے گا جو نیکیوں کا حکم دینے والا اور برائیوں سے روکنے والا ہوگا۔ حق کے ساتھ فیصہ کرے گا اور اس میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کرے گا۔ دنیا اس کی نظر میں تیز و تند ہواؤں میں راکھ سے زیادہ بے قیمت ہوگی اور موت اس کے لئے پاس میں پانی پینے سے بھی زیادہ آسان ہوگی۔ اندر خوف خدا رکھتا ہوگا اور باہر پروردگار کا مخلص بندہ ہوگا خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہ ہوگا۔

اس شہر کے لوگوں میں سے جو اس نبی کے دور تک باقی رہے گا اور اس پر ایمان لے آئے گا اس کے لئے جنت اور رضائے خدا ہوگی اور جو اس بندہ نیک کو پالے اس کا فرض ہے کہ اس کی امداد کرے کہ اس کے ساتھ قتل شہادت ہے او راب میں آپ کے ساتھ رہوں گا اور ہر گز جدا نہ ہوں گا یہاں تک کہ آپ کے ہر غم میں شرکت کرلوں۔

یہ سن کر حضرت علی رو دیے اور فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے نظر انداز نہیں کیا ہے اور تمام نیک بندوں کی کتابوں میں میرا ذکر کیا ہے۔

راہب یہ سن کر بے حد متاثر ہوا اور مستقل امیرالمومنین کے ساتھ رہنے لگا یہاں تک کہ صفین میں شہید ہوگیا تو جب لوگوں نے مقتولین کو دفن کرنا شروع کردیا تو آپ نے فرمایا کہ راہب کو تلاش کرو ۔

او رجب مل گیا تو آپ نے نماز جناہ ادا کرکے دفن کردیا اور فرمایا کہ یہ ہم اہلبیت سے ہے اور اس کے بعد بار بار اس کے لئے استغفار فرمایا ۔

(مناقب خوارزمی ص ۲۴۲ ، وقعۃ صفین ص ۱۴۷)

۵۔ سلمان

۱۲۸۷۔ رسول اکرم(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا کہ سلمان ہم اہلبیت سے ہیں اور مخلص ہیں لہٰذا انہیں اپنے لئے اختیار کرلو۔ (مسند ابویعلی ۶ ص ۱۷۷ / ۶۷۳۹ روایت سعدالاسکاف عن الباقر(ع) ۔ا لفردوس ۲ ص ۳۳۷ / ۳۵۳۲ )

۱۲۸۸۔ ابن شہر آشوب: لوگ خندق کھود رہے تھے اور گنگنارہے تھے ۔ صرف سلمان اپنی دھن میں لگے ہوئے تھے اور زبان سے معذور تھے کہ رسول اکرم × نے دعا فرمائی۔

خدایا سلمان کی زبان کی گرہ کھول دے چاہے دو شعر ہی کیوں نہ ہوں۔ چنانچہ سلمان نے یہ اشعار شروع کردیے:

میرے پاس زبان عربی نہیں ہے کہ میں شعر کہوں ۔ میں تو پروردگار سے قوت اور نصرت کا طلب گار ہوں۔

اپنے دشمن کے مقابلہ میں اور بنی طاہر کے دشمن کے مقابلہ میں۔ وہ پیغمبر جو پسندیدہ اور تمام فخر کاحامل ہے۔

تاکہ جنت میں قصر حاصل کرسکوں اور ان حوروں کے ساتھ رہوں جو چاند کی طرح روشن چہرہ ہوں۔

مسلمانوں میں یہ سن کر شور مچ گیا اور سب نے سلمان کو اپنے قبیلہ میں شامل کرنا چاہا تو رسول اکرم(ص)  نے فرمایا کہ سلمان ہم اہلبیت سے ہیں ۔(مناقب ۱ ص ۸۵)

۱۲۸۹۔ رسول اکرم (ص)  : سلمان ! تم ہم اہلبیت سے ہو اور اللہ نے تمہیں اول و آخر کا علم عنایت فرمایا ہے اور کتاب اول و آخر کو بھی عطا فرمایا ہے ۔ (تہذیب تاریخ دمشق ۲ ص ۲۰۳ روایت زید بن ابی اوفی)

۱۲۹۰۔ امام علی (ع): سلمان نے اول و آخر کا سارا علم حاصل کرلیا ہے اور وہ سمندر ہے جس کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہوسکتا ہے اور وہ ہم اہلبیت سے ہیں ۔ (تہذیب تاریخ دمشق ۶ ص ۲۰۱ روایت ابوالنتجری ۔ امالی صدوق ص ۲۰۹ / ۸ روایت مسیب بن نجیہ ۔ اختصاص ص ۱۱ ، رجال کشی ۱ ص ۵۲ / ۲۵ روایت زرار ، الطرائف ۱۱۹/ ۱۸۳ روایت ربیعہ السعدی ، الدرجات الرفیعہ ص ۲۰۹ روایت ابولنجتری)

۱۲۹۱۔ ابن الکواء : یا امیرالمومنین (ع) ! ذرا سلمان فارسی کے بارے میں فرمایئے

فرمایا کیا کہنا ۔ مبارک ہو ۔ سلمان ہم اہلبیت سے ہیں ۔ اور تم میں لقمان حکیم جیسا اور کون ہے۔ سلمان کو اول و آخر سب کا علم ہے۔ (احتجاج ۱ ص ۶۱۶ / ۱۳۹ روایت اصبغ بن نباتہ، الغارات ۱ ص ۱۷۷ روایت ابو عمر و الکندی۔ تہذیب تاریخ دمشق ۶ ص ۲۰۴)

۱۲۹۲۔ امام باقر (ع): ابوذر سلمان کے پاس آئے اور وہ پتیلی میں کچھ پکارہے تھے۔ دونوں محو گفتگو تھے کہ اچانک پتیلی الٹ گئی اور ایک قطرہ سالن نہیں گرا۔ سلمان نے اسے سیدھا کردیا ۔ ابوذر کو بے حد تعجب ہوا۔ دوبارہ پھر ایسا ہی ہوا تو ابوذر دہشت زدہ ہوکر سلمان کے پاس سے نکلے اور اسی سوچ میں تھے کہ اچانک امیرالمومنین (ع) سے ملاقات ہوگئی۔

فرمایا: ابوذر ! سلمان کے پاس سے کیوں چلے آئے اور یہ چہرہ پر دہشت کیسی ہے!

ابوذر نے سارا واقعہ بیان کیا ۔

فرمایا ابوذر ! اگر سلمان اپنے تمام علم کا اظہار کردیں تو تم ان کے قاتل کے لئے دعائے رحمت کرو گے اور ان کی کرامت کو برداشت نہ کرسکو گے۔

دیکھو! سلمان اس زمین پر خدا کا دروازہ ہیں جو انہیں پہچان لے وہ مومن ہے اور جو انکار کردے وہ کافر ہے۔ سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔

(رجال کشی ۱ ص ۵۹ / ۳۳ روایت جابر )

۱۲۹۳۔ حسن بن صہیب امام باقر (ع) کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت کے سامنے سلمان فارسی کا ذکر آیا تو فرمایا خبردار انہیں سلمان فارسی مت کہو ۔

سلمان محمدی کہو کہ وہ ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ (رجال کشی ۱ ص ۵۴ / ۲۶ / ۷۱ / ۴۲ روایت محمد بن حکیم، روضۃ الواعظین ص ۳۱۰)

۶۔ عمر بن یزید

۱۲۹۴۔ عمر بن یزید: امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابن یزید ! خدا کی قسم تم ہم اہلبیت سے ہو۔ میں نے عرض کیا۔ میں آپ پر قربان ۔ آل محمد سے؟

فرمایا بیشک انہیں کے نفس سے!

عرض کیا انہیں کے نفس سے؟ فرمایا بیشک انہیں کے نفس سے ! کیا تم نے قران کی یہ آیت نہیں پڑھی ہے “یقینا ابراہیم سے قریب تر ان کے پیرو تھے اور پھر یہ پیغمبر اور صاحبان ایمان ہیں اور اللہ صاحبان ایمان کا سرپرست ہے“۔ آل عمران ۶۸

اور پھر یہ ارشاد الٰہی “جس نے میرا اتباع کیا وہ مجھ سے ہے اور جس نے نافرمانی کی تو بیشک خدا غفور و رحیم ہے“ ابراہیم آیت ۳۶ (امالی طوسی ۴۵ / ۵۳ ، بشارۃ المطفی ۶۸)

۷۔ عیسی بن عبداللہ قمی

۱۲۹۵۔ یونس: میں مدینہ میں تھا تو ایک کوچہ میں امام صادق(ع) کا سامنا ہوگیا۔

فرمایا یونس ! جاؤ دیکھو دروازہ پر ہم اہلبیت میں سے ایک شخص کھڑا ہے۔ میں دروازہ پر آیا تو دیکھا کہ عیسی بن عبداللہ بیٹھے ہیں ۔

میں نے دریافت کیا کہ آپ کون ہیں۔

فرمایا میں قم کا ایک مسافر ہوں۔

ابھی چند لمحہ گذرے تھے کہ حضرت تشریف لے آئے اور گھر میں مع سواری کے داخل ہوگئے۔

پھر مجھے دیکھ کر فرمایا کہ دونوں آدمی اندر آؤ اور پھر فرمایا یونس! شائد تمہیں میری بات عجیب دکھائی دی ہے۔

دیکھو عیسی بن عبداللہ ہم اہلبیت سے ہیں۔

میں نے عرض کی میری جان قربان یقینا مجھے تعجب ہوا ہے کہ عیسی بن عبداللہ تو قم کے رہنے والے ہیں ۔ یہ آپ کے اہلبیت میں کس طرح ہوگئے۔

فرمایا یونس ! عیسی بن عبداللہ ہم میں سے ہیں زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ۔

(امالی مفید۱۴۰ / ۶ ، اختصاص ص ۶۸ ، رجال کشی ۲ ص ۶۲۴ / ۶۰۷)

۱۲۹۶۔ یونس بن یعقوب : عیسی بن عبداللہ امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر جب چلے گئے تو آپ نے اپنے خادم سے فرمایا کہ انہیں دوبارہ بلاؤ۔

اس نے بلایا اور جب آگئے تو آپ نے انہیں کچھ وصیتیں فرمائیں اور پھر فرمایا : عیسی بن عبداللہ ! میں نے اس لئے نصیحت کی ہے کہ قرآن مجید نے اہل کو نماز کا حکم دینے کا حکم دیا ہے اور تم ہمارے اہلبیت میں ہو۔

دیکھو جب آفتاب یہاں سے یہاں تک عصر کے ہنگام پہنچ جائے تو چھ رکعت نماز ادا کرنا اور یہ کہہ کر رخصت کردیا اور پیشانی کا بوسہ بھی دیا ۔

(اختصاص ص ۱۹۵ ، رجال کشی ۲ ص ۶۲۵ / ۶۱۰)

۸۔ فضیل بن یسار

۱۲۹۷۔ امام صادق (ع) : خدا فضیل بن یسار پر رحمت نازل کرے کہ وہ ہم اہلبیت سے تھے۔ (الفقیہ ۴ ص ۴۴۱۔ رجال کشی ۲ ص ۴۷۳ / ۳۸۱ روایت ربعی بن عبداللہ فضیل بن یسار کے غسل دینے والے کے حوالہ سے !

۹۔ یونس بن یعقوب

۱۲۹۸۔ یونس بن یعقوب : مجھ سے امام صادق (ع) یا امام رضا (ع) نے کوئی مخفی بات بیان کی اور پھر فرمایا کہ تم ہمارے نزدیک متہم نہیں ہو ۔ تم ایک شخص ہو جو ہم اہلبیت سے ہو ۔ خدا تمہیں رسول اکرم (ص)   اور اہلبیت کے ساتھ محشور کرے اور خدا انشاء اللہ ایسا کرنے والا ہے۔ (رجال کشی ۲ ص ۶۸۵ / ۷۲۴)

(اقتباس از کتاب اہلبیت (ع) قرآن اور سنت کی روشنی میں از محمد محمدی ری شہری)

 

غالیوں سے اہلبیت(ع) کی برائت

 

۱۲۴۲۔ امام علی(ع): خدایا میں غالیوں سے بری اور بیزار ہوں جس طرح کہ عیسی بن مریم(ع) نصاری سے بیزار تھے۔

خدایا انہیں بے سہار کردے اور ان میں سے کسی ایک کی بھی مدد نہ کرنا ۔

(امالی طوسی ۶۵۰ / ۱۳۵۰ روایت اصبغ بن نباتہ ، مناقب ابن شہر آشوب ۱ ص ۲۶۳)

۱۲۴۳۔ امام علی(ع): خبردار ہمارے بارے میں بندگی کی حد سے تجاوز نہ کرنا۔ اس کے بعد ہمارے بارے میں جو چاہو کہہ سکتے ہو کہ تم ہماری حد تک نہیں پہنچ سکتے ہو اور ہوشیار رہو کہ ہمارے بارے میں اس طرح غلو نہ کرنا جس طرح نصاری نے غلو کیا کہ میں غلو کرنے والوں سے بری اور بیزار ہوں۔

(احتجاج ۲ ص ۴۵۳ / ۳۱۴ ، تفسیر عسکری ۵۰/ ۲۴)

۱۲۴۴۔ امام زین العابدین(ع): یہودیوں نے عزیر سے محبت کی اور جوچاہا کہہ دیا تو نہ ان کا عزیر سے کوئی تعلق رہا اور نہ عزیر کا ان سے کوئی تعلق رہا۔ یہی حال محبت عیسی میں نصاری کا ہوا ۔ ہم بھی اسی راستہ پر چل رہے ہیں ۔ ہمارے چاہنے والوں میں بھی ایک قوم پیدا ہوگی جو ہمارے بارے میں یہودیوں اور عیسائیوں جیسی بات کہے گی تو نہ ان کا ہم سے کوئی تعلق ہوگا اور نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہوگا۔(رجال کشی )